Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 24th March
نئی دہلی، 24 مارچ:بی جے پی یوپی میں ایک مختلف حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ اب مسلمانوں کو ساتھ لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی من کی بات کو ایک اہم سیاسی ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی نے پانچ نکاتی فارمولہ بھی تیار کیا ہے۔ خود کو ہندی پٹی اور ہندوتوا کی پارٹی کے طور پر قائم کرنے والی بی جے پی اب یوپی میں اپنی سیاست کو بدلنا چاہتی ہے۔ اس نئے دور کی بی جے پی کو ہندوتوا پر توجہ مرکوز کرنی ہے، لیکن اسے مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے۔ جو طبقہ پہلے دور نظر آتا تھا، اب اس کا رویہ بدل رہا ہے۔اسی وجہ سے بی جے پی اب اتر پردیش میں مسلمانوں کو اپنے حصار میں لانے کے لیے ایک مختلف حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی کی من کی بات کے کئی پیغامات کو ایک کتاب کی شکل میں مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ بتایا جا رہا ہے کہ بی جے پی 150 صفحات کی اس کتاب کی ایک لاکھ کاپیاں پرنٹ کرنے جا رہی ہے اور پھر رمضان میں تقسیم کی جائے گی۔مقصد ایک ہے – پی ایم مودی کی ’من کی بات‘ کے پیغام کو مسلمانوں تک پہنچانا۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ کتاب اردو میں شائع ہو رہی ہے، یعنی مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے ہر طریقے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اب چونکہ یہ مشن بڑا ہے اس لیے اسے اسی طرح پروموٹ کیا جائے گا۔ پارٹی رمضان کے موقع پر ایک بڑا پروگرام منعقد کرنے جا رہی ہے۔اس پروگرام کے ذریعے من کی بات کتاب کو 80 لوک سبھا سیٹوں پر مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہاں بھی پارٹی، مسلم اسکالرز، طلبہ اور اردو قارئین کو اپنا ہدف سمجھ رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے یوپی کی 14 ہاری ہوئی لوک سبھا سیٹوں پر بازی پلٹنے کی تیاری جاری ہے۔ اس بارے میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ریوپی یاستی صدر کنور باسط علی نے کہا ہے کہ من کی بات کے ذریعے ہم حکومت کی ترجیحات کو مسلم کمیونٹی تک پہنچائیں گے۔ جو کتاب بھی شائع ہو رہی ہے وہ 2022 کی من کی بات کی 12 اقساط کا ایک اقتباس ہے۔اس کتاب کے ذریعے ان 14 لوک سبھا سیٹوں پر نظر ہے جہاں اپوزیشن نے مسلمانوں کے ذہنوں میں بی جے پی کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی ہے۔ ویسے یہ اتر پردیش کے مسلمانوں کے قریب جانے کی صرف ایک کڑی ہے۔ بی جے پی نے اتر پردیش میں مکمل پانچ نکاتی فارمولہ تیار کر لیا ہے۔ اس فارمولے کے تحت مسلم اسنیہ ملن سمیلن، صوفی سمیلن، پسماندہ سمیلن پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔یہاں بھی اسنیہ سمیلن کو بہت اہم مانا جا رہا ہے کیونکہ اس ایک پروگرام کے ذریعے بی جے پی مسلم سماج کو ‘ایک ملک ایک ڈی این اے’ کا پیغام دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ عید کے بعد مغربی یوپی کے مظفر نگر ضلع سے اس کا آغاز کرے گا۔ ان کانفرنسوں کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی جانی ہے کیونکہ مغربی یوپی میں مسلم جاٹ، مسلم گرجر، مسلم راجپوت، مسلم تیاگی جیسی برادریاں آباد ہیں، یہ ذاتیں ہندو سماج میں پائی جاتی ہیں اور ان کے درمیان باہمی تعلقات ہیں۔کبھی ان ہندو اور مسلم ذاتوں کے آباؤ اجداد ایک ہی تھے۔ ایسی صورت حال میں خیال کیا جاتا ہے کہ جینیاتی طور پر ان کا ڈی این اے بھی ایک جیسا ہوگا۔ اسی طرح صوفی پروگراموں کی بھی اپنی اہمیت ہے اور بی جے پی اسے یوپی میں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔