سماج اور سیاست دونوں کے لئے نقصان دہ

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –22  MAY

  مدھیہ پردیش اسمبلی کی میعاد 6 جنوری، 2024 کو ختم ہو جائےگی۔کرناٹک کے بعد سب سے بڑا انتخابی گھماسان اب مدھیہ پردیش میں ہی ہونے والا ہے۔چنانچہ ریاستی اسمبلی کے سبھی 230 ممبروں کے انتخاب کے لئے انتخابات نومبر، 2023 میں یا اس سے پہلے ہونے والے ہیں۔مگر ابھی سے ہی وہاں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔اور ایسا اس لئے  ہو رہاہے کہ ریاست کی دونوں بڑی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس سے وابستہ تقریباََ تمام سیاستدان اس صورتحال سے آگاہ ہیںاس بار اقتدار کی کرسی تک ان کا پہنچ پانا ٹیڑھی کھیر سے کم نہیں ہوگا۔ بات ایک انار اور سو بیمار والی ہے۔شاید اسی وجہ سے وہ اپنی امیدواری کو کنفرم کرالینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے ہیں۔لہٰذا، وہ ابھی سے پار ٹی اعلیٰ کمان پر دباؤ ڈا لنا شروع کر دیا ہے۔دونوں بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ کمان کے لئے اس صورتحال پر قابو پانا بہت آسان نہیں ہے۔دباؤ کی سیاست نے دونوں پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کو پریشان کر رکھا ہے۔

  سابق وزیر اعلیٰ کیلاش جوشی کے بیٹے دیپک جوشی دباؤ کی سیاست میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے میں کرپشن کا معاملہ اٹھایا۔ پھر کارکنوں کو نظر انداز کرنے پر بات کی۔ جب ان کی بات نہیں سنی گئی تو وہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔اس کے علاوہ بی جے پی میں اور بھی کئی لیڈر ہیں جو مسلسل دباؤ کی سیاست پر کام کر رہے ہیں۔ درمیان میں ان کے ایسے بیانات بھی آتے رہتے ہیں، جو پارٹی کو مشکل میں ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اس معاملے میں سابق ایم پی رگھونندن شرما، سابق وزیر اجے وشنوئی، انوپ مشرا جیسے کئی لیڈروں کے نام سامنے آرہے ہیں۔

ایک طرف جہاں بی جے پی اپنے لیڈروںکے دباؤ کی سیاست سے پریشان ہے وہیں دوسری طرف کانگریس کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں ہے۔ حال ہی میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور بی ایس پی کے سابق ریاستی صدر ستیہ پرکاش سکھر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔  اور بھی کئی لیڈر ہیں جو دباؤ کی سیاست پر کام کر رہے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی اورعام آدمی پارٹی کی بی جے پی اور کانگریس کے لیڈروں پر خاص نظر ہے جو باغیانہ رویہ اپناتے ہیں۔ یہ تینوں پارٹیاں ایسے لیڈروں پر دائو لگانے کا ارادہ کر رہی ہیں، جنھیںبڑے پیمانےعوامی حمایت حاصل ہے۔اِدھر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی ناراض لیڈروں کو منانے کی مہم میں مصروف ہے وہیں کانگریس بھی عدم اطمینان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر ناراض رہنما دونوں جماعتوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور ان کا سیاسی حساب کتاب بھی بگاڑسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے لیے مخالفین کے مقابلے میں اپنے ہی لوگ بہت بڑا مسئلہ بننے والے ہیں ۔

اس کے علاوہ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی وہاں سیاست میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہاہے۔ سیاسی جماعتوں نے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے ذات پات کی بنیاد پر شرطیں لگانا شروع کر دی ہیں۔مدھیہ پردیش کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے جب ذات پات کی سیاست کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ رجحان اشارہ دے رہا ہے کہ مدھیہ پردیش کی سیاست اتر پردیش اور بہار کے راستے پر چلنے لگی ہے۔ ریاستی اسمبلی انتخابات جیتنا بی جے پی اور کانگریس دونوں کا ہدف ہے۔ دونوں جماعتیں یہ مان رہی ہیں کہ سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات آسان نہیں ہوں گے۔ اس لیے ان جماعتوں نے ہر طبقے کو بہلانے کے منصوبے بنائے ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پہلے ہی سورنا کلا بورڈ، رجت کلیان بورڈ، تل غنی بورڈ، وشوکرما کلیان بورڈ، تیجاجی کلیان بورڈ اور کشواہا کلیان بورڈ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس نے یادو سماج، کیوٹ سماج اور دیگربرادریوں کے ساتھ پسماندہ طبقات کی کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔

  بی جے پی ہو یا کانگریس، دونوں پارٹیاںبرادریوںکی کانفرنسیں منعقد کرنے اور اپنے عزائم کو ان تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔  پھر متعلقہ برادری سے وابستہ لیڈران پر بھی اسمبلی انتخابات کے لیے ٹکٹ دینے کے لیے اعلیٰ کمان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان لیڈروں کی منطق یہ ہے کہ ان کی برادری کے ووٹروں کی فیصد کے حساب سے اتنے ٹکٹ اسی برادری کے لوگوں کو دئیے جائیں۔ مجموعی طور پر اس الیکشن سے پہلے ہی ریاست میں اتر پردیش اور بہار کی سیاست کے سائے نظر آنے لگے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایم پی میں ذات پات کی بنیاد پر سیاست کی طرف بی جے پی اور کانگریس نے اس سے پہلے کبھی قدم نہیں بڑھایا تھا۔لیکن اس بار دونوں سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش میں روایت کو نظر انداز کرنے پر آمادہ ہیں۔ان کا یہ عمل صحتمند سماج اور سیاست دونوں کے لئےنقصاندہ  ثابت ہو سکتاہے۔

*******************