شیر شاہ سوری ہندوستان کا عظیم حکمراں

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –21  MAY

 

 

ڈاکٹر اے۔کے۔علوی
ماہر تعلیم
شہروند ممتاز’’سند اعزاز‘‘عطیہ صدرجمہوریہ ہند
نیشنل ایوارڈ ہیڈماسٹر(سبکدوش)

شیر شاہ سوری دنیا کی ممتاز ہستیوں میں نمایاں شخصیت کا نام ہے ساتھ ہی وہ حکمراں تھا جس کا درجہ ہندوستان کی تاریخ میں بہت بلند ہے۔ عالمی تاریخ ایسے حکمراں سے آج بھی متاثر ہے۔ شیر شاہ سوری جس نے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں اپنی پوری زندگی وقف کردی، اپنی پانچ سالہ حکمرانی میں ہندوستان کے لیے بے مثال کارنامے سرانجام دیئے جو آنے والی صدی میں بھی ماڈل بن گئے۔
شیر شاہ سوری کا اصل نام فرید خاں تھا۔ وہ 1473ء میں ہسار (ہندوستان)کے روہ علاقہ کے پٹھان قبیلہ سور میں حسن خاں سوری کے یہاں پیدا ہوئے جو اُن کے والد اور سہسرام بہار کے جاگیردار تھے۔ شیر شاہ تاریخی شہر سہسرام کا سپوت تھا۔ وہیں اس کا بچپن گذرا۔ سہسرام اور جونپور (اترپردیش)میں تعلیم مکمل کی اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کرلی، فارسی کے ساتھ ہی تاریخ ادب اور مذہبی تعلیم پر بھی عبور حاصل کرلیا۔بہادر خاں لوہانی عرف حاکم سلطان محمد صوبہ بہار کے یہاں شیر شاہ نے گھریلو حالات کے سبب ملازمت کرلی اور اپنی ذہانت و شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ سلطان محمد نے متاثر ہوکر شیر شاہ کو اپنی فوج میں بڑے عہدے پر فائز کیا۔ ان دنوں شیر شاہ جو فرید خاں تھا، حاکم سلطان محمد کے ساتھ جنگل میں شکار میں شامل تھا۔ اچانک جنگل میں شکار کے وقت ایک شیر نے حاکم سلطان محمد پر حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر فرید خاں یعنی شیر شاہ نے شیر کو اپنی تلوار کی وار سے دو ٹکڑے کردیا جس سے حاکم سلطان محمد کی جان بچ گئی۔ یہ بہادری دیکھ کر حاکم سلطان محمد نے فرید خاں کو خوش ہوکر شیر خاں کا خطاب عطا کیا۔
کچھ دنوں بعد اپریل ۱۸۲۷ء میں شیر شاہ نے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی ملازمت قبول کرلی اور اپنی ذہانت سے بابر کو متاثر کیا۔ مغلوں کے دربار میں رہ کر حکمراں کے طور طریقے سیکھے۔ بابر کے انتقال کے بعد 1530ء میں مغل خاندان میں بابر کا بیٹا ہمایوں ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ اس وقت محمود شاہ لودی کے ساتھ شیر شاہ تھا۔ 1534ء میں محمود شاہ لودی اور ہمایوں بادشاہ کے بیچ چنار میں جنگ ہوئی۔ شیر شاہ اپنی عقل مندی سے جنگ سے الگ ہوگیا تاکہ مغل بادشاہ ہمایوں کے نزدیک ہوسکے۔
1539ء میں چوسا کی جنگ میں فتح کے بعد شیر شاہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ شیر شاہ سوری کے لقب سے بنگال اور بہار پر حکمرانی کرنے لگا اور پورے ہندوستان کی بادشاہت کے لیے کوشش جاری رکھی۔ 1540ء میں ہمایوں اور شیر شاہ سوری کے درمیان قنوج کے قریب فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ لاہور تک ہمایوں کا تعاقب شیر شاہ سوری نے کیا۔ ہمایوں سندھ کی طرف بھاگ گیا، شیر شاہ سوری پنجاب پر قبضہ کرکے دہلی آیا۔ 1542ء میں آگرہ پہنچ کر پورے ہندوستان کے بادشاہ کے طور پر اپنے نام کا سکہ اور کتبہ جاری کردیا۔
ہندوستان کا حکمراں بننے کے بعد شیر شاہ سوری نے 1545ء تک حکومت کی۔ وہ پانچوں وقت نماز پڑھتا، رحم دلی اور انصاف پسندی کو اپناتا۔ شیر شاہ کا قول تھا: ’’انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔‘‘ اس میں ذرا بھی تعصب نہ تھا، اس نے مسلمانوں کے ساتھ ہی ہندوئوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں اور سبھی کو پوری مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ہندوئوں کے دیوانی مقدمے اپنی اپنی روایات کے مطابق اور مسلمانوں کے مقدمے ان کی اپنی اسلامی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔
شیر شاہ صرف پانچ سالہ حکومت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے کام کرگیا جو تاریخ میں یادگار مثال بن گئے۔ شیر شاہ سوری ایک عظیم اور بہادر سپہ سالار ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست تنظیمی صلاحیتیں رکھنے والا منتظم حکمراں بھی تھا جس نے اپنی سلطنت کو 47اضلاع میں تقسیم کر رکھا تھا۔ بہتر انتظامات کے لیے اس نے ذیل اقدام اٹھائے تھے:
(۱) دیوان وزارت: جس کا سربراہ وزیر کہلاتا تھا اس کے ذمے مالیات کا شعبہ تھا۔ حکومت کی آمدنی و اخراجات کی نگرانی اس کے سپرد تھی۔ اس کے علاوہ دوسرے وزراء کے فرائض کی نگرانی بھی اس کے ذمے تھی۔ واضح ہو کہ شیر شاہ سوری خود ماہر معاشیات تھا، اس لیے وہ خود اس شعبے کی سرپرستی و نگرانی کرتا تھا۔
(۲) دیوانِ عرض:یعنی کے وزیر دفاع فوج کا سربراہِ اعلیٰ ہوتا تھا۔ اس کا سربراہ خود شیر شاہ سوری تھا، دیوان عرض فوج کی بھرتی، نظم و نسق اور رتربیت، تنخواہوں کی تقسیم وغیرہ کی ذمے داری شیر شاہ سوری کرتا تھا۔ فوج کے امور میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔
(۳) دیوانِ رسالت یعنی وزیر خارجہ جس کی ذمے داریوں میں دوسرے ملکوں میں سفیروں کا تقرر، بیرونی ملکوں کے سفیروں کا استقبال اور خط و کتابت کرنا اور معاہدات اور دستاویز کی تیاری کے ساتھ ساتھ ان کا مکمل ریکارڈ رکھنا بھی شامل تھا۔
(۴) دیوانِ انشا یعنی مرکزی حکومت کا سکریٹریٹ، شاہی احکام و فرامین کے مسودات کی تیاری کرنا، متعلقہ حکام تک ان کی ترسیل وزارت کی ذمہ داری تھی، حکومت کا جملہ ریکارڈ بھی اسی دیوان انشا کی تحویل میں رہتا تھا۔
(۵) دیوانِ قضا: یہ شعبہ انصاف تھا جس کا سربراہ قاضی القضاۃ کہلاتا تھا۔ سرکاروں اور پرگنوں میں ماتحت فرامینوں کی تقرری اور ان کے فیصلوں کے خلاف درخواستوں(اپیلوں) کی سماعت بھی قاضی القضاۃ کے فرائض میں شامل تھا۔
(۶) دیوان بیرد: یہ شعبہ ڈاک اور خبررسانی کا ذمے دار تھا۔ دس افسر اعلیٰ برید ممالک کہلواتا تھا ملک کے طول و عرض سے حکام اور عوام کے حالات اور ملک میں رونما ہونے والے اہم واقعات کے بارے میں بادشاہ کو خبریں مہیا کرنا اس شعبے کی ذمہ داری تھی۔ حکومت کے تمام جاسوس اور شاہی ڈاک کے ہرکارے بھی اس شعبے سے منسلک ہوتے تھے۔
(۷) خانساماں: خانساماں شاہی محل اور اس کے متعلقہ شعبہ جات کا افسر اعلیٰ ہوتا تھا۔ شاہی محل کے تمام اخراجات اور خوراک کی ذمے داری اسی کے سپرد تھی۔شاہی کارخانوں اور ذخیروں کا بندوبست اور نگرانی بھی اس کے فرائض میں شامل تھی۔ قربِ شاہی کی وجہ سے اس عہدے پر فائز شخص کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اس لیے اسے حکومت میں بہت اہمیت دی جاتی تھی۔شیر شاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ جسے برصغیر میں ہمیشہ یادگار حیثیت حاصل ہے اور رہے گی ذرائع رسل و رسائل کو بہتر موثر اور محفوظ بنایا۔ اس کے دور حکومت میں مسافر اور راہ گیر سفر کے دوران اپنے تحفظ کی ذمہ داری سے لاپرواہ ہوکر جنگل تک میں قیام کرنے کے خطرے اور ڈر سے بالکل آزاد تھے۔ وہ کسی خوف اور خطرے کے بغیر رات کو جنگل اور آبادی میں جہاں جی چاہے پڑائو ڈال دیتے۔ اپنے مال اور جانوروں کو کسی تحفظ اور نگرانی کے بغیر کھلا چھوڑ کر اطمینان کی نیند سوتے تھے۔ مقامی زمین دار اور پولس عملہ خود ان کی نگرانی کرتے تھے۔ شیر شاہ نے پولس کی جگہ فوج کو دی تھی۔ فوج ہی ملکی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ قیام امن کے لیے پولس کے فرائض انجام دیتی تھی۔ اصلاح اور پرگنے میں شق دار کے عہدے پر فائز اپنے علاقے کے امن و امان قائم رکھنیکے فرائض انجام دیتے تھے۔ جرائم پیشہ لوگوں پر کڑی نگاہ رکھنا، انہیں سزا دلوانا بھی ان کے فرائض میں شامل تھے۔
دیہات میں قیام امن کے لیے مقامی نمبردار (مقدم) کے عہدے پر فائز ہی کے ذمہ داری تھی۔ مجرموں، قاتلوں کو سزا بھی دلوانا نمبردار کی ذمہ داری تھی۔ نہیں پورا ہونے پر نمبردار اور زمیندار کو سزا بھگتنی پڑتی تھی۔ شیر شاہ سوری نے ان انتظامی اصولوں پر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجہ میں جرائم کا مکمل صفایا ہوگیا۔ مسافر بلاخوف و خطر دور دراز کے سفر کرنے لگے، انہیں ہر طرح کا تحفظ حاصل تھا۔شیر شاہ سوری نے پورے ملک میں جرنیلی سڑک G.T.Roadبنوایا۔ سونارگاڈ (بنگلہ دیش) سے آگرہ، دہلی، لاہور سے ہوتے ہوئے سندھ تک پھر آگرہ سے بنارس اور آگرہ سے جودھ پور، چتوڑ تک، مدہوا ملتان تک آج یہ (تین ملکوں پاکستان بنگلہ دیش ہندوستان) یعنی چرایا ہندوستان میں تعمیراتی کرائیں۔ ساتھ ہی سڑکوں کے دونوں طرف درخت لگوائے۔ ہر دو کوس پر مسافروں، راہ گیروں کے قیام کے لیے ان کی حفاظت کے لیے سرائیں تعمیر کرائیں۔ ان سرائیں میں ہندومسلمانوں کے لیے الگ الگ خوراک کھانے اور رہائش کا انتظام کیا۔ ہر سرائے کے ساتھ ہی مسجد اور کنویں تعمیر کرائے۔ مسجد کے لیے مئوذن، مسافروں کے سامان کی حفاظت کے لیے چوکی دار رکھے۔ ساتھ ہی سرایوں میں محکمہ سرانمر سالی اور ڈاک کے کارندوں کی رہائش کا انتظام کیا۔ ان کے گھوڑوں اور چاروں کا خیال رکھا گیا۔ امن و امان کے قیام کے لیے اور جرائم کے انسداد کے لیے ہر سرائے میں پولس افسر مقرر کیے تھے۔ سڑکوں کی تعمیر، سرائیں کی تعمیر، محکمہ سرانمر سانی اور ڈاک کے انتظام سے تجارت میں ترقی ہوئی۔ معاشی استحکام حاصل ہوا۔ دو قسم کے محصول رائج کیے تھے، غیر ملکی مال ملک کے اندر داخل ہونے پر اور دوسرا محصول مالیہ کی فروخت کے وقت ڈھائی فیصد ٹیکس لیا جاتا۔ اس سے تجارت کو فروغ ملا۔ دہلی اور سہزا میں قلعہ روفہ مسجدیں تعمیر کرائیں جو آج بھی مثالی زیارت گاہ ہے۔معیاری سکہ جاری کیا جو سونے چاندی تانبے کے تھے۔ ان شیر شاہ سوری کے معیاری سکوں کے اجرا سے مالی نظام بہتر ہوا، تجارت میں نمایاں آسانی پیدا ہوئی، ان سکوں کے رواج کومغلوں انگریزوں نے بھی اپنایا اور قائم رکھا۔
شیر شاہ سوری نے مفلس ،نادر ،یتیم کی فلاح و بہبود کے لیے امدادی، خیراتی ادارے قائم کیے۔ معذور انسانوں، مسافروں کو اپنی سرپرستی میں لنگر خانہ کے ذریعے ہر روز کھانا کھلایا۔ علماء طالب علموں اور مساجد کے اماموں، مئوذنوں کو وظائف دینے کا اہتمام کیا۔ قومی یکجہتی کی مثال قائم کی۔ ہندو مسلمان دونوں کو یکساں خیال رکھا، سبھی کی سرپرستی خود کی۔ زمین کی پیمائش کرائی، زمینوں کو بیگھوں میں تقسیم کیا۔ 3600سکندری مربعے گزر کا ایک بیگھہ قرار دیا اور ہر بیگھہ کا الگ الگ خسرہ نمبر طے کیا اور رجصتر میں اندراج کرایا۔ اسی کے مدنظر پیداوار کا 14واں حصہ مال کی سرکاری شرح قائم کی۔ کاشت کار اپنی سہولت سے نقدی یا جنس دے سکتے تھے۔فوجوں کو ہدایت تھی کہ فصلوں کو نقصان نہ پہنچایاجائے۔ قحط سالی یا فصلوں کی تباہی کی صورت میں مالیہ معاف کرنے کا اعلان ہوتا، اس سے شیر شاہ کے عہد میں آمدنی میں اضافہ ہوا اور کسانوں میں خوشحالی آئی۔
برصغیر کی تاریخ میں شیر شاہ سوری صرف پانچ سال حکومت کرتے ہوئے کالنجر کے خلاف فوج کشی کا ارادہ کیا جس کی وجہ کالنجر کے راجا کرت سنگھ نے شیر شاہ سوری کے باغی ریواکے راجا بیر بھان بگھیلا کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی تھی۔ شیر شاہ کے مطالبہ پر بھی راجا کرت سنگھ نے مطالبہ مسترد کردیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے کالنجر پر فوج کشی کی اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ یہ نومبر 1544ء کا واقعہ ہے۔ محاصرہ سات ماہ تک جاری رہا۔ راجہ کرت نے قلعہ بند ہوکر مقابلہ جاری رکھا۔22مئی 1545ء کو شیر شاہ سوری نے قلعے کی چلواروں کو آتشیں گولہ باری سے اڑانے کا حکم دیا۔ اتفاق سے اسی وقت بارود ہوائی قلعے کے دروازے سے ٹکرا کر واپس بارود خانے میں آگری جس سے بارود کے ذخیرہ کو آگ لگ گئی اور آگ کے بھڑک جانے سے شیر شاہ سوری بری طرح جھلس گیا۔ شیر شاہ سوری کے ساتھ پاس کھڑے کئی سردار اور امیر بھی جل گئے۔ شیر شاہ سوری بے ہوش ہوگیا، س کو بچے ہوئے سرداروں، سپہ سالاروں نے مورچے میں پہنچا دیا۔ جہاں اسے ہوش آیا تو اپنی سانس چلنے تک فوج کو بہادری سے لڑنے کا حکم دیتا رہا۔ مرنے سے پہلے کالنجر کا قلعہ فتح کرنا چاہتا تھا، فوج شیر شاہ سوری کے حکم پر کالنجر قلعہ فتح کرنے کے لیے لڑ رہی تھی۔ برتیلوں نے کالنجر قلعہ فتح کرلیا جب یہ خبر شیرشاہ سوری نے سنی جسے سننے کے لیے زندہ تھا، اسی وقت شیر شاہ سوری کا انتقال ہوگیا۔اس کے جسم کو سہسرام لاکر دفن کیا گیا۔ سہسرام میں شیر شاہ سوری کا مقبرہ اس کی باووقار شخصیت کی زندہ تصویر ہے۔
٭٭٭
موبائل: 9430955474،9304520864
ای میل: dr.ak.alwi@gmail.com