مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر کی عمارت میں قریب ٢ فٹ پانی جمع

طلبا کی رہائش سے لیکر تعلیم و  تدریسی خدمات پوری طرح  متاثر 
سیتا مڑھی (مظفر عالم)
بارش شروع ہوتے ہی گاؤں سے لےکر شہر تک پانی کے نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں سرکار اور اُنکے افسران خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں شہر کے نگر نگم کے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہیں، شمالی بہار کا مشہور دینی ادارہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجوپٹی سیتامڑھی کی عمارت میں قریب ٢ فٹ پانی جمع ہوجانے سے طلبا کی رہائش سے لیکر تعلیم و تعلم اور. تدریسی خدمات پوری طرح متاثر ہوگئی ہے. آبی جماؤ کے سبب جہاں تعفن ہے، انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے. طلبا کی صحت متاثر ہورہی ہے. صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں. یہ صرف بارش کا جمع پانی ہی نہیں بلکہ شہر کے گنجان علاقہ میں ہونے کی وجہ سے محلے کی گلیوں کا جمع پانی کی نکاسی بھی ہونے سے ادارہ کو پریشانی جھیلنی پڑ رہی ہے. یہ علاقہ نگر نگم کے زیر انتظام آتا ہے. یہاں پانی کی نکاسی کا باضابطہ انتظام نہیں ہونے ہرسال قریب اس ماہ میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے. ادارہ میں عربی کے تمام درجات سمیت حفظ وقرات کی مستند تعلیم ہوتی ہے. جہاں قریب ٥٠٠سے زائد طلبا اپنی علمی تشنگی بجھاک علم دین سے سیراب ہوتے ہیں. ادارہ کے بانی وناظم مولانا عبدالمنان قاسمی نے بتایا کہ ہرسال اس پریشانی کا لاحقہ ہوتا ہے. اس کا سب سے منفی اثر بچوں کی تعلیم اور صحت پر پڑتا ہے. بارش کے زمانے میں سردی، بخار اور. انفیکشن کے سبب اچھے خاصے بچے گھر چلے جاتے ہیں. کھپڑ پوش عمارت میں درسیات سمیت بچوں کی رہائش بھی ہے. ابھی بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں جمع ہے. کمروں میں بھی پانی جمع ہے. جس سے بہت سی دشواریاں پیش آرہی ہیں. دنیا جانتی ہے کہ مدارس کا نظام اہر خیر کے تعاون سے ہی چلتا ہے. سرکاری سطح پر کسی طرح کا معاملہ نہیں ہوتا ہے. انہوں نے کہا کہ مہمانان رسول کے لیے اسلام پسند مسلمانوں اور اہل خیر کی نظر التفات بہر صورت ضروری ہے. انہوں نے عمار ت کی تعمیر ومرمت کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے. انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں دینی اداروں میں بچے پہلے کی طرح محنت کش اور قناعت پسند بہت کم اور نازک طبیعت ہوتے ہیں. موسم کی ہلکی بھی تبدیلی سے بچوں کی صحت متاثر ہوجاتی ہے. ساتھ ہی انہوں نے عوام سے دل کھول کر تعاون کرنے کی اپیل کی ہے.
معاشرے کی دینی ضروریات کی تکمیل میں مدارس کی حیثیت اس کسان کی سی ہے جو زمین کے ہموار کرنے، فصل کے اگانے، کٹائی سے لے کر اس غلہ اور اناج کے مارکٹ پہونچنے تک اپنی ساری توانائی اور قوت اس کے پیچھے صرف کرتا ہے، جو غلہ تمام انسانوں کی آسودگی اور بھوک مٹانے کا سبب بنتا ہے، دین کے تمام شعبوں کو زندہ، بیدار اور متحرک رکھنے میں مدارس کی یہی مثال ہے۔