غیر جمہوری ایکشن پر بریک

تاثیر  ۱۸  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

سپریم کورٹ نے ملک میں جاری بلڈوزر ایکشن پر یکم اکتوبر تک پابندی لگا دی ہے۔ اب اس کیس کی اگلی سماعت یکم اکتوبر کو ہوگی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا ہے گیا کہ اگلی سماعت یعنی یکم اکتوبر تک ہماری اجازت کے بغیر ملک میں کہیں بھی بلڈوزر نہیں چلے گا۔ تاہم عدالت نے واضح کیا ہےکہ اس ہدایت کا اطلاق سڑکوں، فٹ پاتھ یا ریلوے لائنوں کو بلاک کرکے کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات پر نہیں ہوگا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ’’ بلڈوزر انصاف کا گن گان بند کیا جائے۔ ‘‘سپریم کورٹ کی اس ہدایت کو یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کےلئے بڑا جھٹکا مانا جا رہا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سے ریاست میں چلائے جا رہے’’ بلڈوز جسٹس‘‘ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے 17 ستمبر کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین کو سننے کے بعد بلڈوزر کارروائی کے حوالے سے ملک بھر میں لاگو کرنے کے لیے ایک رہنما اصول بنایا جائے گا۔
  جسٹس بی آر گوائی  اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ کے ذریعہ یہ ہدایت مختلف ریاستی حکومتوں کی طرف سے ملزمین کی عمارتوں کو منہدم کرنے کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست پر دی گئی ہے۔ عرضی گزار جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کو ٹارکیٹ کر کے ان کے مکانات کو بلڈوزر کرنے کی کارروائی کی جارہی ہے۔ سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ افسران کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے۔ تاہم بنچ نے یہ کہتے ہوئے کوئی نرمی دکھانے سے انکار کر دیا کہ ’’ اگر مکانات کے انہدام کی کارروائی کو ایک ہفتہ تک روک دیا جائے تو کوئی آسمان نہیں گرپڑے گا۔‘‘ سماعت کے دوران جب تشار مہتا نے کہا کہ املاک کے انہدام کا بیانیہ گڑھا جا رہا ہے، اس پر بنچ نے کہا کہ آپ مطمٔن رہیںباہری شور ہمیں متاثر نہیں کر تا۔‘‘ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اس نے یہ ہدایت آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دی ہے۔ جسٹس وشواناتھن نے سماعت کے دوران ریاستوں کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر غیر قانونی انہدام کی ایک بھی مثال کہیں ہے تو یہ ہمارے آئین کی روح کے خلاف ہے۔
اِدھر عدالت کے اس فیصلے پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کا رد عمل سامنے آیا ہے۔انھوںنے یوپی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا ہے ،’’جس دن سے یہ بلڈوزر چلنا شروع ہوا ہے، ہم اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ بلڈوزر کو انصاف کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں ۔ اس فیصلے کے بعد بلڈوزر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔میں خاص طور پر ان لوگوں کومبارکباد دیتا ہوں ، جن کو عدالت انصاف دے سکتی ہے۔ایسے میں حکومت کے خلاف ہی کارروائی ہو گی۔ اکھلیش یادو نے مزید کہا، حکومت نے لوگوں کو ڈرانے کے لیے جان بوجھ کر بلڈوزر کی اتنی تشہیر کی کہ لوگ دہشت میں آگئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بلڈوزر ایکشن کا اتنا’’ مہِما منڈن‘‘ نہیں ہونا چاہئے، میں اس کے لئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے بھی سپریم کورٹ  کی اس ہدایت کا خیرمقدم کیا ہے۔
  اس سے قبل 12 ستمبر کو بھی’’ بلڈوزر ایکشن‘‘  پرسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی ملک کے قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ تب یہ معاملہ جسٹس ہرش کیش رائے، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے تھا۔بنچ کے ذریعہ معاملے کی سماعت کے دوران کورٹ کا آبزرویشن سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ملزم قصوروار بھی ہے، اس کے باوجود قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر اس کے گھر کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی تین ریاستوں میں قانونی عمل کو درکنار کر ملزمان کو من مانے ڈھنگ سے قصوروار قرار دیکر ان کے مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ آئینی نظام پر حملے کی شروعات یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے1917 میں کی تھی۔ وہ اس کام میں اتنے مشہور یا کہہ لیجئے کہ بدنام ہوئے کہ لوگ انھیں ’’بلڈوزربابا‘‘ کہنے لگے۔اس لقب پر بابا بھی پھولے نہیں سماتے رہے۔  ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدھیہ پردیش اور پھر بی جے پی حکومت بننے کے بعد راجستھان میںبھی بلڈوزر کے گرجنے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔تازہ ترین واقعہ کی بات کریں تو اسی سال ماہ جون میں یوپی کے مراد آباد اور بلیا میں 2 ملزمان کی 6 جائیدادیں مسمار کر دی گئیں۔اسی دوران بریلی میں روٹی کے تنازعہ پر ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے ہوٹل مالک ذیشان کے ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔ 21 اگست کومدھیہ پردیش کے چھتر پور کوتوالی پولس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے کے لئے ہجوم کو اکسانے کے الزام میں 24 گھنٹے کے اندر، حکومت نے 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی ، حاجی شہزاد علی کی تین منزلہ حویلی کو مسمار کردیا۔ اسی طرح راجستھان کے ادے پور کے ایک سرکاری اسکول میں 10ویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں کے درمیان ہوئی مارپیٹ کے معاملے کو ہوا دیکر بات کا اس قدر بتنگڑ بنایا گیا اور پھر 17 اگست کو ملزم طالب علم کے والد سلیم شیخ  کے گھر کو منہدم کر دیا گیا۔اس سے قبل حکومت کی ہدایت پر محکمہ جنگلات نے ملزم کے والد کو غیر قانونی کالونی میں بنایا ہوا مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا۔اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔اسی دوران جمعیۃ علماء ہندکی عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے بی جے پی کے اس منافرت آمیز ’’بلڈوزر ایکشن‘‘ پر بریک لگا دیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت میں مضمر عندیہ سے ایسا لگ رہا ہےکہ معاملے کی مکمل سماعت کے بعد اس غیر جمہوری ایکشن پر ہمیشہ کے لئے بریک لگ جائےگا۔