اتحادیوں کو صبرو قناعت کی گھُٹّی پلا نے کا چیلنج

تاثیر  ۷  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پچھلے دنوں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کی ملاقات کیا ہوئی سیاسی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے تو جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان رشتہ منقطع ہونے اور بہار میں ایک بار پھر سیاسی کھیلا ہونے کی الٹی گنتی بھی شروع کر دی تھی۔گزشتہ جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا۔ اس کے بعد بے پَرکی اڑانے والوں کو موقع مل گیا۔ پھر یہ دعویٰ ہواؤں میں گشت کرنے لگا کہ نتیش کمار نے تیجسوی یادو اور لالو پرساد یادو سے ملاقات کی ہے۔ بہار میں جلد ہی ایک بار پھر آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی حکومت بننے والی ہے۔حالانکہ وہ ویڈیو دو سال پرانا تھا۔اس درمیان گزشتہ جمع کونتیش کمار اور بی جے پی کے سربراہ جے پی نڈا سے ہوئی  ملاقات کے بعد افواہوں کے غبارے پھُس ہو گئے۔جے پی نڈا کی موجودگی میں نتیش کمار نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ ’’ہم ان لوگوں (آر جے ڈی) کے ساتھ دو بار گئے تھے۔ غلطی ہو گئی تھی۔اب یہ دوبارہ کبھی نہیں ہوگا۔ اب پھر کبھی نہیں جاؤں گا…..‘‘ظاہر ہے نتیش کمار کی اس وضاحت سے بہار کی سیاست کے حوالے سے ہورہی افواہ بازی پر روک تو لگی ہی ہے، بی جے پی کی جان میں بھی جان آ گئی ہوگی۔اس لئے کہ پارٹی اعلیٰ کمان ہر حال میں یہ چاہتی ہے کہ 2025 کے بہار اسمبلی انتخابات نتیش کمار کی قیادت میں لڑا جائے۔ دوسری طرف نتیش کمار بھی اس کئے تیار نظر آ رہے ہیں۔مگر اس بار وہ زیادہ سے زیادہ سیٹوں کو حاصل کرکے اصلی بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے موڈ میں ہیں۔
  بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کی بہار آمد سے قبل سیاسی حلقوں میں نتیش کمار کی بغاوت کو لے کر جتنی بھی باتیں ہوئیں، بہار کے وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔ ان کی ٹیم کی طرف سے بھی کوئی تردیدی وضاحت نہیں کی گئی۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے سلسلے میں تیجسوی یادو سے ملاقات کی تھی۔ دوسری طرف نتیش کمار کے قریبی وزیر اشوک چودھری وی آئی پی سربراہ مکیش ساہنی سے ملتے رہے۔ ریاستی بی جے پی صدر ڈاکٹر دلیپ جیسوال تذبذب کی حالت میں دہلی سے پٹنہ تک دوڑتے رہے۔ حالات ایسے تھے کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو مورچہ سنبھالنا پڑا۔ نتیش کمار کی صاف گوئی کے بعد بی جے پی نے راحت کی سانس لی۔ حالانکہ سیاسی حلقوں میں سی ایم نتیش کمار اور بی جے پی قومی صدر جے پی نڈا کے درمیان ہوئی ملاقات کو جے ڈی یو کی بالادستی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سی ایم کی رہائش گاہ پر میٹنگ کے بعد آئی جی آئی ایم ایس کے پلیٹ فارم سے نتیش کمار کا یہ اعلان کہ وہ تیسری بار آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ نہیں جائیںگے ، ملک کی موجودہ سیاست کے تناظر میں کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہار میں آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ جے ڈی یو  کے جانے کا مطلب کوئی سمجھے یا نہیں سمجھے ، بی جے پی حکمت کار ضرور سمجھتے ہیں۔نتیش کمار کے اس اعلان کا استعمال کرتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ 2025  کے اسمبلی انتخابات کو جیت کر بہار میں این ڈی اے کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔
  اِدھر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی اِس بار این ڈی اے کو 200 کے پار پہنچانے کا نعرہ دیا ہے۔ اس نعرے کے پیچھے جے ڈی یو کا بھی واضح نظریہ ہے۔ ہمیشہ بڑے بھائی کے کردار میں رہنے والے جے ڈی یو کے ذرائع کے مطابق جے ڈی یو نے اندر ہی اندر اس بار بہار کی 120   سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو باقی 123 سیٹوں پر مقابلہ کرنا ہے۔ بازگشت یہ ہے کہ اس کے پیچھے جے ڈی یو کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ راجیہ سبھا کی دونوں سیٹیں بی جے پی کو دینے کے پیچھے بھی یہی راز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اپنی طاقت بڑھانی ہے اور نتیش کمار کو بہار اسمبلی میں اپنی طاقت ۔ اس لئے ابھی سب کچھ ایک خاموش منصوبے کے مطابق چل رہا ہے۔
جے ڈی یو کا ماننا ہے کہ 2010 کی اسمبلی والی حیثیت حاصل کرنے کے لئےجے ڈی یو کو 115  سے 120 سیٹوں اپنے امیدواروں کو اتارنا ضروری ہے۔ جے ڈی یو کی حکمت عملی مرتب کرنے والے 120 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا جواز بھی پیش کر رہے ہیں۔  جے ڈی یو کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے 17 لوک سبھا سیٹوں پر لڑنے کے بعد 12 سیٹیں جیتی ہیں۔ وہیں جے ڈی یو نے 16 سیٹوں پر لڑ کر 12 لوک سبھا سیٹیں جیتی ہیں۔ اس لحاظ سے بہار میںبی جی پی کے مقابلے جے ڈی یو کا اسٹرائیک ریٹ زیادہ ہے۔ایسے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2025 میںبی جے پی 100 سے کم سیٹوں پر چناؤ لڑے گی؟  یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ بی جے پی کو راشٹریہ لوک مورچہ، ایل جے پی (آر)، ایچ اے ایم اور راشٹریہ ایل جے پی کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ویسے راجیہ سبھا کی دونوں سیٹیوں کو بی جے پی کے حوالے کر دئے جانے کے تناظر میں بات کی جائے تو یہاں جے ڈی یو کا دعویٰ حق بجانب لگتا ہے۔ جے ڈی یو کسی بھی قیمت پر 2025 کے انتخابات میں ریاست کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنا چاہتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہی نتیش کمار کا عزم بھی ہے۔چنانچہ اس کے لئے جے ڈی یو کم سے کم 120 سیٹوں پر الیکشن لڑنا پڑے گا۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی کے حصے میں 0 8 سے 85 اسمبلی سیٹوں سے زیادہ نہیں آ سکیں گی۔این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں کو بھی قناعت سے کام لینا پڑے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی اپنے اتحادیوں کو صبرو قناعت کی گھٹی پلا سکے گی ؟  اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
********************