حزب اللہ کی انتقامی کارروائی

تاثیر  ۲۲  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

گذشتہ کئی دنوں سے جاری اسرائیل کی خونریز کارروائیوں کے بعد کل ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ نے شمالی اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر دی۔ حزب اللہ کی جانب سے داغے گئے تقریباً 100 راکٹوں کی وجہ سے شمالی اسرائیل کے ایک وسیع خطے میں فضائی حملے کے سائرن بج اٹھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ راکٹ شہری علاقوں کی طرف فائر کیے گئے تھے، جب کہ پچھلے راکٹ حملوں کا نشانہ بنیادی طور پر فوجی اہداف تھے۔ان حملوں میں چا ر افراد کے شدید طور پر زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ عمارتوں کو بھی نقصان پہنچاہے۔ یہ راکٹ بیراج بیروت میں اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 37 افراد کی ہلاکت کے بعد لانچ کیا گیا ہے۔ اسرائیل کے اس حملے میں زخمی ہونے والوں میں حزب اللہ کے ایک اعلیٰ رہنما کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ حالانکہ حزب اللہ پہلے ہی پیجر دھماکوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھی۔حزب اللہ کے ان راکٹ حملوں سے قبل اسرائیلی فوج نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنوبی لبنان میں سلسلے وار حملوں میں راکٹ لانچروں سمیت عسکریت پسندوں کے 400 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔اسرائیل اور حزب اللہ کے بیچ تقریباً ایک سال قبل غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے گولہ باری جاری ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ شروع کیے جانے کے بعد حزب اللہ نے فلسطینیوں اور اتحادی تنظیم حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے راکٹ فائر کرنا شروع کیے تھے۔ اس لڑائی کی وجہ سے سرحد کے دونوں طرف دسیوں ہزار افراد کو بے گھر ہونا ہونا پڑا ہے۔حزب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حملوں کو صرف غزہ میں جنگ بندی کی صورت میں روکے گا، جو کہ امریکہ، مصر اور قطر کی قیادت میں طویل عرصے سے جاری مذاکرات کے بار بار پٹری سے الٹنے کی وجہ سے بہت مبہم دکھائی دیتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ لبنان میں گزشتہ منگل کو پیجر دھماکوں کے ایک ہی دن بعد دوسری لہر میں واکی ٹاکی حملوں نے مقامی لوگوں کو موبائل فون سمیت مواصلاتی آلات کا استعمال کرنے سے خوف زدہ کر دیا ہے۔بدھ کے دن جب پیجر دھماکوں میں ایک نوجوان لڑکے سمیت ہلاک ہونے دیگر تین لوگوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں، اسی دوران ایک دھماکے نے چاروں طرف افراتفری مچا دی۔ اس جگہ کچھ لوگوں نے حزب اللہ کا، جبکہ چند نے حزب اللہ کے رہنما کی تصویر والا سیاہ پرچم اٹھا رکھا تھا ،جس پر ہلاک ہونے والے نوجوان کی تصویر بھی موجود تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ دھماکے انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہیں، لیکن اس سے ان کی مزاحمت اور عزم اور مضبوط ہوں گے۔ ہم اس کے عادی ہیں اور ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔ واضح ہو کہ گزشتہ منگل کی شام قریب ساڑھے تین بجے لبنان کے مختلف علاقوں میں پیجرز پھٹنے سے دھماکے شروع ہو گئے تھے۔ یہ دھماکے قریب ایک گھنٹے تک ہوتے رہے۔ اس کے فوراً بعد لبنان بھر کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ ان حملوں میں 12 افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔بدھ کو لبنان میں پیجرز کے بعد واکی ٹاکی پھٹنے کے تازہ حملوں میں 20 افراد ہلاک اور 450 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔لبنان میں اب تک پیجر اور واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات میں دو بچوں سمیت 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے اراکین پر ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ تھا۔ ۔مگراس معاملے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ ایک سابق اسرائیلی افسر سے پوچھنے پر اس نے بتایا ’’ ایسے وقت میں سمجھدار افراد خاموش رہتے ہیں۔‘‘ ان حملوں کے اثرات کو دیکھ کر لگتا یہ ہی ہے کہ اس کا مقصد اسرائیل کے ایک سخت گیر دشمن کو جسمانی، ذہنی اور تکنیکی طور پر نقصان پہنچانا تھا۔ان حملوں میں لبنانی تنظیم کے مواصلاتی آلات بُری طرح سے متاثر ہوئے ہوئے بھی ہیں۔حالانکہ حزب اللہ شمالی اسرائیل میں راکٹس حملے اور خفیہ کارروائیاں کرکے اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں اس نے اعلان بھی کیا تھا کہ وہ ان حملوں کا جواب دے گی۔ انتقامی کارروائیوں میں شاید تھوڑا وقت لگے گا، لیکن یہ کارروائیاں ضرور ہوں گی ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کا نیا مقصد شمالی سرحدوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس اپنے علاقوں میں بھیجنا تھا، لیکن یہ مقصد آگے نہ بڑھ سکا۔ویسے اسرائیل غزہ میں اب بھی جنگ لڑ رہا ہے اور منگل کو اس کے چار مزید فوج اہلکاروں کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے میں دنیا کو شاید ایک اور زمینی جنگ کا خیرمقدم نہ کرنا پڑے۔ ایک نیوز چینل کے ایک سروے کے مطابق اسرائیل میں 52 فیصد افراد لبنان سے جنگ لڑنے کے حامی ہیں، جبکہ 30 فیصد افراد اس کی مخالفت کرتے ہیں اور 18 فیصد افراد اس معاملے پر کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے سے قاصر ہیں۔ان تمام حقائق کے مدِنظربھی ماہرین یہ پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان یہ تنازع مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرے گا۔ویسے اس خطے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے امن پسند دنیا انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم مان رہی ہے۔
*************