مسجد تنازعہ : نادان دوستوں کی دوستی کا خمیازہ ؟

تاثیر  ۸  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سنجولی میں بنائی گئی مسجد کے حوالے سے میونسپل کارپوریشن، شملہ کے کمشنر کی عدالت میں 7 ستمبر کوسماعت ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ دوران سماعت نہ تو وقف بورڈ اور نہ ہی تعمیر مسجد کمیٹی یہ بتا سکی کہ مسجد کی ڈھائی منزلیں کس نے بنوائیں۔ مسجد کی تعمیر کے لیے وقف بورڈ کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے چیئرمین محمد لطیف کا کہنا ہےکہ مسجد کی ڈھائی منزلیں کمیٹی نے بنوائی ہیں  ۔مگرڈھائی منزلوں کو کس نے بنایا، اس بارے میں نہ تو وقف بورڈ کو پتہ ہے اور نہ تعمیر مسجد کمیٹی کو۔مسجد کی فنڈنگ سے متعلق سوالات کے جواب بھی اطمینان ڈھنگ سے نہیں دئے جا سکے۔حالانکہ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ جس زمین پر مسجد بنی ہے، اس کی ملکیت کو لے کر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ یہ اراضی وقف بورڈ کی ہے۔ تنازعہ صرف اس تعمیر کا ہے جو غیر مجاز طور پر ہوئی ہے۔سماعت کے دوران عدالت کو یہ جانکاری دی گئی ہے کہ 1947 میں جب پورے ہندوستان میں وقف املاک کا سروے کیا گیا تھا، تو مسجد وقف بورڈ کی ملکیت تھی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جمعرات کو مسجد کے خلاف ہندو تنظیموں کا بڑا احتجاج ہوا تھا۔مظاہرین کا الزام تھا کہ یہاں دیگر ریاستوں سے آئے ہوئے لوگ مکان کے لیے لی گئی زمین پر غیر قانونی طور پرمسجد بنائے ہوئے ہیں۔ تعمیراتی کام کسی کی اجازت کے بغیر ہو رہا ہے۔لوگوں کے غصے کو دیکھ کر پی ڈبلیو ڈی کے وزیر وکرمادتیہ سنگھ نے کہا تھا کہ اگر یہ عمارت غیر قانونی پائی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔چار گھنٹے طویل مظاہرے میں مقامی باشندوں، بی جے پی کارکنوں اور کئی ہندو تنظیموں کے ارکان نے حصہ لیا۔ مظاہرین نے مسجد کے خلاف نعرے لگائے۔ریلی میں شملہ میونسپل کارپوریشن کے تین کانگریسی کونسلرز بھی شامل ہوئے تھے ۔ انھوں نے بھی ہندو تنظیموں کو سیکڑوں حامیوں کے ساتھ مسجد کے باہر احتجاج کیا تھا۔ اس دوران شہر میں سہارنپور اور اتر پردیش کے رہنے والے تجارت پیشہ لوگوں نے اپنی اپنی دکانیں بھی بند رکھی تھیں ۔اس پورے معاملے کو لے کر سنجولی میں ماحول ابھی بھی کافی کشیدہ ہے۔ہندو تنظیموں کے بعض کارکنان کے مطابق مسجد کی دو منزلیں بغیر اجازت کے بنائی گئی ہیں، جب کہ کچھ تنظیمیں پوری مسجد کو ہی غیر قانونی قرار دے رہی ہیں۔ ہندو تنظیمیں مسجد میں نئی تعمیر کی آڑ میں پوری مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے توڑنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس نے بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا تھا۔ شملہ کے ڈی سی انوپم کشیپ نے کہاتھاکہ انتظامیہ امن کو یقینی بنانے کے لیے دونوں کمیونیٹزکے لوگوں سے بات کر رہی ہے۔
واضح ہو کہ گزشتہ بدھ کو یہ معاملہ ہماچل پردیش قانون ساز اسمبلی میں بھی اٹھاتھا۔ اسمبلی کے مانسون اجلاس میں اس معاملے پر کافی گہماگہمی دیکھنے کو ملی تھی۔اس دوران کانگریس کے دو ایم ایل ایز بھی مسجد کے خلاف کافی غصے میں نظر آ رہے تھے۔اس معاملے میں شملہ کی کسم پٹی اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھنے والےہماچل پردیش کے محکمہ پنچایتی راج کے کابینہ وزیر انیرودھ ٹھاکر نے اسمبلی میں ہندو تنظیموں کے مظاہرے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی اور مسجد کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے کہا کہ اس کی دو منزلیں غیر قانونی ہیں۔کانگریس کے مذکوورہ وزیر نے ہی اس مسئلے کو ایوان میں اٹھایا تھا اور مسجد کو منہدم کرنے کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا کہ مسجد کے آس پاس  باہر سے آئے ہوئے لوگ رہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سب کےسب  روہنگیا ہیں۔ وہ ہماچل کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ جب شہری قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے، تو پھر اتنے عرصے تک اس معاملے کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ ناجائز ناجائز ہے چاہے وہ مندر ہو یا مسجد۔
قابل ذکر ہے سنجولی کے ملیانہ میں واقع ایک سیلون میں اس کے مسلم پروپرائٹر اور ایک ہندو کسٹمر کے درمیان گزشتہ ہفتےکہا سنی کے بعد آپس میں مار پیٹ ہو گئی تھی۔ پہلے کسٹمر نے کسی بات پر سیلون والے کو تھپڑ جڑ دیا۔ اس کے بعد سیلون والے کے ساتھیوں نے کسٹمر کے ساتھ مار پیٹ کی۔ اس شخص کے سر پر چوٹ آئی اور اسے 12 ٹانکے لگے۔ پولس نے مارپیٹ کرنے والوں کو گرفتار کر لیا ہے۔بات معمولی تھی ، لیکن موقع کی تاک میں بیٹھی ہندو تنظیموں نے مسجد اور وہاں آباد مسلمانوں کے خلاف جلسے جلوس شروع کر دئے۔ساتھ ہی مسجد کی تعمیر نو کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اس کو منہدم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آج سوموار تک کا الٹمیٹم دیا تھا۔ ہندد تنظیموں کے سربراہوں کا کہنا تھا کہ اگر 7  ستمبر تک ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو اس معالے کو ہم لوگ اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے اور اس کو ہم خود اپنے ڈھنگ سے حل کریں گے۔
  دوسری جانب اس معاملے کو لیکر ایم پی اسد الدین اویسی نے کانگریس پر بڑا حملہ کیا ہے۔انھوں نے پوچھا ہے کہ ’’ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے یا کانگریس کی؟ ‘‘ متعلقہ ویڈیو میں ہماچل پردیش کے وزیر بی جے پی کی زبان بول رہے ہیں۔‘‘ اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ عدالت میں اس مسجد کی تعمیر سے متعلق ایک کیس چل رہا ہے۔ سنگھیوں کا ایک جھنڈ مسجد کو توڑنے کی مانگ کر رہا ہے۔ اسد الدین اویسی کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے،’’ ہندوستان کے شہری ملک کے کسی بھی حصے میں رہ سکتے ہیں، انہیں ’’روہنگیا‘‘ کہنا ملک مخالف سوچ ہے۔ ایم پی اسد الدین اویسی کے مطابق ہماچل کی ’’محبت کی دکان میں نفرت پروان چڑھ رہی ہے۔ سنگھ کے سمّان میں، کانگریس میدان میں۔‘‘ویسے میونسپل کارپوریشن، شملہ کے کمشنر کی عدالت میں اس معاملے کی اگلی سماعت 5 اکتوبر کو ہونے والی ہے۔ امید تو یہی کی جانی چاہئے کہ مسجد فریق کے لوگ احمقانہ ڈھنگ سے اپنی بے خبری کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی باتوں کو اس دن مدلل انداز میں پیش کریں گے۔ ویسے عام طور پر یہی دیکھا جاتا ہے کہ عموماََ مسلم تنظیمیں ڈاکیومنٹیشن کے معاملے میں انتہائی غیر ذمہدارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔خاص ذہنیت کے لوگوں کا سسٹم پر غلبہ ہوتا ہے۔ایک منظم انداز میں دانشور طبقہ کو کنارہ رکھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے طرح طرح کی پریشانیاں سامنے آتی ہیں۔شاید شملہ کے سنجولی بازارکی مسجد بھی چند نادان دوستوں کی دوستی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
*********