غالب اکیڈمی میں صوفی صفت حکیم عبدالحمید کے عنوان سے سیمینار

تاثیر  ۱۴  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

حکیم عبد الحمید کے116ویںیوم پیدائش کے موقع پر غالب اکیڈمی،نئی دہلی اور وزارت ثقافت حکومت ہند کے تعاون سے صوفی صفت حکیم عبدالحمیدؒ کے عنوان سے یک روزہ سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔جس کی صدارت جی آرکنول نے کی۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ حکیم عبدالحمید مرد کامل تھے۔تعلیمی،طبی اور فلاحی ادارے قائم کئے۔انہوں نے یونانی طریقۂ علاج کو جدید میڈیکل طریقۂ علاج کے مساوی بنادیا۔ صوفی براہ راست خدا سے تعلق رکھتا ہے۔حکیم صاحب اپنے عہد کے صوفی تھے۔ غالب اکیڈمی کے سکریٹری نے سیمینار کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی کی گورننگ کونسل سیمینار کے عنوانات طے کرتی ہے اس بار اردو اور ہندی ادب میں تصوف اور بھکتی کی روایت کے عنوان سے مختلف پروگرام بنائے گئے ہیںاور حکیم صاحب کے یوم پیدائش پر سیمینار کا عنوان صوفی صفت حکیم عبدالحمید طے کیا گیا اسے وزارت ثقافت حکومت ہند نے بھی منظور کیا۔ڈاکٹر عقیل احمد نے صوفی صفت حکیم عبدالحمید کے عنوان سے اپنے مقالہ میں کہا کہ حکیم صاحب طب کے میدان میں، تعلیم کے میدان میں، لوگوں کی فلاح کے لیے غربا و مساکین کی مدد کے لیے جو کام کرگئے بلکہ اپنے جانے کے بعد صدیوں تک ان کا انتظام بھی کرگئے وہ کوئی غیر معمولی انسان ہی کرسکتا ہے۔اس موقع پر علیم الدین اسعدی نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکیم عبد الحمید صوفی صفت تھے جس محفل میں جاتے وہ الگ دکھائی دیتے تھے ان کی شخصیت میں ایک شان تھی۔ان کی سادگی میں قلندرانہ شان تھی۔ انہوں نے خانقاہی نظام اور علمائے دیوبند میں یکجہتی قائم کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹرامان اللہ نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکیم عبد الحمید کا جسم خاکی تھا۔ان کی روح ملکوتی تھی۔ خدانے انہیں ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا تھا۔ تیرہ برس سے خاندان کی کفالت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ سولہ سال کی عمر میںمعارف کا مطالعہ کرنے لگے تھے،انہیں خالق اور مخلوق سے عشق تھا۔انہوں نے عالم انسانیت کے مسائل کا حل زندگی بھر کیا۔ کم سونا،کم بولنا،کم کھانا ان کا معمول تھا۔طب یونانی کو حکیم صاحب نے سائنٹفکٹ طریقے پر عام کیا۔ یامین قریشی سی اے نے اپنے مقالے صوفی صفت حکیم عبدالحمید میں کہا کہ حکیم صاحب نے جس طرح زندگی گزاری ہے ان کی خدمات جتنی تھی وہ سب قومی فلاح کے لیے تھیں۔ایسی کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی۔ان کی خدمات نے انہیں لیجنڈ بنا دیا۔ڈاکٹر ابرار رحمانی نے اپنے مقالے صوفی سنت حکیم عبدالحمید میں کہا کہ وہ محض ایک حکیم یا طبیب نہیں تھے بلکہ وہ اپنی سادہ طبیعت اور مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی باصفا تھے۔اس موقع پرڈاکٹر خالد صدیقی نے اپنی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب کی تمام تحریریں کتابیں سب موجود ہیں۔حکیم صاحب کی قائم کردہ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرے گی۔خواجہ سید محمد نظامی نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکیم صاحب سے ہمارے خاندان کا گہرا تعلق تھا۔ ان کی تعلیمات کا ذکر ہماری خاندانی محفلوں میں ہوتا تھا۔ان کی دیانتداری کی باتیں ہمیں بتا ئی جاتی تھیں۔ معاملات میں ان کا جواب نہیں تھا۔وہ اپنے زمانے کے بڑے صوفی تھے۔اس موقع پرپروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ کشف المحجوب علی ہجویری کی کتاب ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ تصوف خدمت خلق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حکیم صاحب نیک انسان تھے۔ صوفی منش تھے وہ مراقبہ بھی کرتے تھے ۔ان سے بڑا صوفی اور کون ہوسکتا ہے۔ ان کی توجہ تعلیم پر تھی۔ محمد خلیل نے کہا کہ حکیم صاحب سائنس کی دنیا کا مطالعہ کرتے تھے۔ سادہ مزاج، لباس بھی سادہ استعمال کرتے تھے۔اس موقع پر متین امروہوی نے اپنی نظم پیش کی۔اردو رسم الخط سیکھنے والے طلبا کو اسناد بھی تقسیم کی گئی۔ اس موقع پر پروفیسر طارق کی کتاب کتاب العین کا اجرا بھی ہوا۔ سیمینار میں بڑی تعداد میں ادیب،طبیب اور شاعر موجود تھے جن میں پروفیسر سلیم قدوائی، چشمہ فاروقی،نسیم بیگم، سرفراز احمد فراز، احترام صدیقی،پروین ویاس، شعیب رضا فاطمی، فضل بن اخلاق، سکندر عاقل ، پروفیسر معظم الدین، شبیع احمد،ریاض الرحمن،انوپمہ شری واستو ،رچنا نرمل،کرشنا شرما دامنی ،گولڈی گیت کار، ایس کے ایس کمار، حاجی معراج الدین،اشتیاق احمد، محمد ارشاد خا ن ،فرقان ،ادیب اور بڑی تعداد میں طلبا و شعرا موجود تھے۔