! کہیں ہم سے ہی تو چوک نہیں ہوتی رہی ہے ؟

تاثیر  ۱۴  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

وقف (ترمیمی) بل، 2024 کے حوالے سے تشکیل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو مطلوب عوام و خواص کے خیالات اورمشورے بھیجنے کی مدت گزشتہ جمعہ کی رات 12 بجے ختم ہو گئی۔ مدت کے آخری لمحے تک کتنے مشورے بل کی حمایت میں آئے ہیں اور کتنے خلاف میں، ابھی اس کی تفصیل سامنے آنی باقی ہے۔مگر اس سے پہلے ایک خاص ذہنیت کی نمائندگی کرنے والے میڈیا کی جانب سے ایک ایسا بیانیہ لوگوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جیسے وقف بوردڈ ہی ملک کے عوام کی زمینوں کا سب سے بڑا لٹیرا ہو۔ حالانکہ بات بڑے قاعدے سےکہی جا ہی ہے۔ذرا کہنے کا انداز دیکھئے ، ’’ وقف بورڈ پر زمینوں پر قبضے کے ایسے الزامات لگ رہے ہیں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ اس سے ڈرنے لگا ہے۔ اگرچہ وقف بورڈ کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن کم از کم اس کے لامحدود اختیارات کو روکنا لازمی ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے مرکز کی مودی حکومت نے وقف (ترمیمی) بل، 2024 پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ لوک سبھا نے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیج دیا ہے۔‘‘وقف (ترمیمی) بل، 2024کی حمایت کرنے والے دوسرے ادارے اور افراد بھی کچھ اسی اسلوب میں اپنی باتیں پیش کر رہے ہیں۔ان میں ایک طبقہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ تاہم جو ادارے یا افراد اس بل کے مشمولات سےمتفق نہیں ہیں، وہ گزشتہ 28 اگست سے 13 ستمبر کی 12 بجے رات تک اسی کوشش میں غلطاں و پیچاں ہوتے رہے کہ ملک میں کم و پیش 20 کروڑ کی مسلم آبادی کا ایک نمایاں تناسب اس بل کے خلاف اپنی تجاویز جے پی سی کے چیئر مین کو آن لائن ارسال کردے۔ اس کام میں کچھ ادارے پیش پیش رہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے طبقے نے اس کام میں بالکل دل چسپی نہیں لی۔ بیشتر کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا، انھیں کیا کرنا ہے۔ جن لوگوں کو تھوڑا بہت معلوم تھا، ان میں سے کچھ لوگوں کو دبی زبان میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ملک کی اکثر وقف املاک پر بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر سیاسی مافیاؤں یا ان کے جھولا برداروں کا قبضہ ہے۔ ان املاک سے عام مسلمانوں کو کیا فائدہ ہے جو ہم اس میں پڑنے جائیں ؟ کچھ لوگ تو ’’بل مخالف مہم‘‘ سے خود کی لا تعلقی کا اظہار ’’بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کہہ کر دے رہے تھے۔

وقف (ترمیمی) بل، 2024 کے حوالے سے ملک کے چند مسلمانوں کی لاکھ سرد مہری کے باوجود ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے ، جو معاملے کی باریکیوں کو سمجھتارہا ہے اور اپوزیشن کے تعاون سے اس بات کی کوشش کر تارہا ہے کہ یہ بل کسی بھی طرح سے پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہو سکے۔ وہ طبقہ لگاتا ر وقف ترمیمی بل، 2024 کے نقصانات کے بارے میں عوام کو بتاتا رہا ہے۔ انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ مذہب اسلام میں ضرورت مندوں و مسکینوں کی مدد کے لیے اللہ کی راہ میں دی جانے والی زمینوں کو وقف جائیداد کہا جاتا ہے، جس کی دیکھ ریکھ وقف بورڈ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن مجوزہ بل بھارتی آئین کی دفعہ 15(5) کی صریح خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس کے ذریعہ ملک کے ہندو مسلم تانے بانے کو بھی بکھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری مساجد، مدارس اور قبرستانوں پر مرکزی حکومت کی بری نظر ہے ۔ حکومت وقف املاک کے تحفظ سے متعلق پورا نظام ملک کے ضلع کلکٹروں کو سپرد کردینا چاہتی ہے۔ساتھ ہی اس نظام میں کچھ ایسے لوگوں کوشامل کرنا چاہتی ہے، جن کا ان وقف املاک سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔لوگوں کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ قاعدے کے مطابق اگر کسی بھی جائیداد یا اراضی کا قانونی تنازعہ پیش آتا ہے تو اس کے تصفیے کے لیے ایک مخصوص قانونی مدت میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا انتظام ہے۔مگر اس بل کے ذریعے اس انتظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی کہ اگر کسی گاؤں میں 100 برس پرانی عیدگاہ موجود ہو اور وہاں لوگ عبادت کررہے ہیں اسی دوران اگر آج اچانک کوئی شخص آکر فرضی کاغذات کے ذریعے اس پر اپنا دعوی ٹھوک دے ، تب اسی وقت اس عیدگاہ کو متنازعہ قرار دیکر اس اراضی پر عبادات کی ادائیگی پر روک لگادی جائے گی۔ بل کی مخالفت کرنے والے لوگ یہ مان رہے ہیں کہ یہ بل ایک انتہائی خطرناک قانون کا پیش خیمہ ہے۔ اسے روکنے کے لئےپوری امت مسلمہ کو آگے آنا ہوگا اور مجموعی طور پر اس کے خلاف اپنے اعتراضات داخل کر نے کے بعد بھی اگر وقت پڑے تو احتجاج کے اگلے مرحلے کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ ویسے بل کی مخالفت کرنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ خدا نخواستہ اگر غلطی سے بھی یہ بل پاس ہوگیا تو ہم نے پہلے سے ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رہنمائی میں سپریم کورٹ جانے کی تیاری کر رکھی ہے۔

اِدھرمہاراشٹر میں 2019 کے اسمبلی انتخابات کے بعد شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے، این سی پی کے شرد پواراور کانگریس کی سونیا گاندھی کی مشترکہ قیادت میں سماجوادی پارٹی، پی ڈبلیو پی آئی، سی پی آئی اور آزاد ایم ایل ایز سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے بنا ایک ریاست سطحی سیاسی اتحاد ’’ مہا وکاس اگھاڑی ‘‘ یا ’’ مہاراشٹر وکاس اگھاڑی‘‘ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تب بھی مہاراشٹر میں اسے لاگو نہیں ہونے دیا جائے گااور وقف بورڈ جیسے پہلے کام کرتا تھا ویسے ہی آگے بھی کام کرتا رہے گا۔خیر یہ تو آنے والے کل کی باتیں ہیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ جے پی سی نے معاملے سے متعلق آگے کی کارروائی جلد سے جلد مکمل کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ اب تک اس کی چار میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ اب فریقین کی رائے جاننے کا وقت آگیا ہے۔ اس کے لیے 18 سے 20 ستمبر تک مسلسل تین دن جے پی سی کی میٹنگیں ہوں گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس (پارلیمنٹ ہاؤس اینکس) میں ہونے والی ان میٹنگوں میں اقلیتی امور کی وزارت کے افسران اس بل پر اپنی رائے دیں گے۔ اس کے بعد مختلف اسٹیک ہولڈر گروپس اور ماہرین سے ان کے خیالات اور سفارشات کے بارے میں مشورہ کیا جائے گا۔ واضح ہو کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو پارلیمنٹ کےاگلے اجلاس سے پہلے لوک سبھا کے اسپیکر کو اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے۔رپورٹ پیش ہونے کے بعد معاملے کی واضح تصویر سامنے آ سکے گی۔تب تک بل کی مخالفت کرنے والے اداروں کے عہدیداروں، ملک کے تمام وقف بورڈ کے ذمہ داروں اور مسلم سماج کی معزز شخصیتوںکے پاس سر جوڑ کر بیٹھنے اور باریک بینی کے ساتھ یہ دیکھنے کا موقع ہے کہ وقف املاک کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے میں کہیں ہم سے ہی تو چوک نہیں ہوتی رہی ہے ؟!