تاثیر ۲۷ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
خانہ جنگی کے شکار سوڈان میں حالات خطرناک حد تک خراب ہو چُکے ہیں۔سوڈان میں ریپڈ سپورس فورسز( آر ایس ایف ) اور سوڈانی فوج کے درمیان جنگ کو17 ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ افریقی ملک میں2 ملین افراد بھکمری کے سبب موت کے دہانے پر ہیں۔25 ملین افراد (جو سوڈان کی مکمل آبادی کا54فیصد ہیں) شدید بھوک جبکہ7 لاکھ 55ہزار افراد قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔یو این کا کہنا ہے کہ ’’عالمی برادری جنگ روکنے میں ناکامیاب ہوئی ہے۔‘‘ یہ جنگ اپریل 2023میں شروع ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ نے متعدد مرتبہ سوڈان میں جنگ کے دوران ہونے والے نقصانات اور شہریوں کو ہونے والے پریشانیوں کے تعلق سے خبردار کیا ہے۔ پوری عالمی برادری یہ مان رہی ہے کہ خانہ جنگی کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ ملک میں تنازعے کے دوران مہلوکین کی تعداد کے مسلسل بڑھنے کے باوجود کسی بھی سطح سے جنگ کو روکنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’عالمی برداری سوڈان میں جنگ روکنے میں ناکامیاب ہوچکی ہے۔‘‘ سوڈان میں10ملین سے زائد باشندے بے گھر ہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان میں پیدا بحران کے مد نظر اسے مزید امداد کی فوری ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبرئیس نے کہا ہے کہ ’’مجھےنہیںمعلوم کہ دنیا سفیدفام اور سیاہ فام افراد کی زندگیوں کو یکساں توجہ دیتی ہے یا نہیں۔‘‘واضح ہو کہ سوڈان شمال مشرقی افریقہ کا ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ اقوام متحدہ کا 193 واں رکن ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سوڈان میں تقریباََ تین دہائیوں سے اسلامی قوانین نافذ تھے، جبکہ ملک میں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر پچھلے 17 سال سے خانہ جنگی چل رہی ہے۔ سوڈان میں ویسے تو مسلمان اکثریت میں ہیں، لیکن 2011 میں جنوبی سوڈان ایک الگ ملک بن گیا تھا ،جہاں عیسائی اکثریت اور مسلمان مذہبی اقلیتوں میں ہیں۔انھیں دنوںسوڈان ریولوشنری فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر الھادی ادریس نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’اس معاہدے پر متفق ہونا ،جس میں مسئلوں کی جڑ پر غور کیا گیا ہے اس سے سوڈان میں امن کی امید پیدا ہوئی ہے، اب ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘اس کے بعد سوڈان کی حکومت نے اسلامی قوانین میں تبدیلی لا کر غیر مسلمانوں کے لیے شراب پینے، بیچنے اور درآمد کرنے پر سے پابندی ہٹانے کے علاوہ اپنا مذہب بدلنے یا چھوڑنے پر موت کی سزا ہٹا دی تھی۔اسی طرح خواتین کے لیے بھی قوانین میں بدلاؤ لایا گیا ۔ جیسے کہ اب انہیں اپنے بچوں کے ساتھ کہیں جانے کے لیے اپنے گھر کے کسی مرد کی اجازت نہیں لینی پڑے گی۔
اپریل ، 2023 کے تیسرے چوتھے ہفتے کی بات ہے۔سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے دیگر حصوں میں زندگی نے گزشتہ ہفتے اچانک ڈرامائی موڑ لے لیا جب اس افریقی ملک پر قبضے کے لیے دو فوجی دستوں میں جھڑپ ہوئی۔ اس کشمکش کے مرکز میں دو جرنیل ہیں۔ عبدالفتاح البرہان، سوڈانی مسلح افواج (ایف اے ایس) کے سربراہ اورنیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آ ر ایس ایف) کے رہنما محمد ہمدان دگالو، جسے ہمدتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں دونوں نے مل کر کام کرتے تھے، لیکن پھر دونوں کے درمیان غلبہ کی لڑائی نے سوڈان کو بری حالت میں پہنچا دیا ۔اس سے قبل دونوں فوجی افسران میں پرانی دوستی تھی۔
17 ماہ سے جاری خانہ جنگی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے تمامتر وسائل تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔انفرااسٹرکچر کا بھی برا حال ہے۔’’دارالسلام‘‘ سے دارالحکومت خرطوم کے ایک حصے’’ ام درمان‘‘ کے کنارے فوج کے زیرِ انتظام علاقے کے ایک بازار تک پہنچنے کے لیے وہاں کی خواتین چار گھنٹے کا پیدل سفر کرتیں ہیں۔ اتنی دور پیدل چلنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد اُنھیں کھانے پینے کی اشیا قدرے سستی مل جاتی ہیں۔ دارالسلام پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے زیر قبضہ علاقہ ہے۔مارے خوف کےاُن کے شوہر گھر سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔ جب نکلتے ہیں تو آر ایس ایف کے جنگجو نہ صرف اُنھیں مارتے پیٹتے ہیں بلکہ اُن سے وہ پیسے بھی لے جاتے ہیں جو وہ سارا دن محنت مزدوری کر کے اپنے گھر بار کے لیے کماتے ہیں، یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انھیں حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔خواتین کا کہنا ہے،’’ ہم یہ سب کچھ اس لیے برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش کرنی ہے۔ یہاں اشیائے خوردنی کی کمی ہے، ہم سب بھوکے ہیں اور ہمیں کھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا ایسے میں خواتین مردوں سے زیادہ محفوظ ہیں؟ ‘‘ اس سوال کے بعد ان کی آوازیں مدھم پڑ گئیں اور خوفناک خاموشی چھا گئی، پھر ان میں سے ایک نے کہا،’ ’یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں، جن کا ریپ کیا گیا، لیکن وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں۔‘‘ یہ بات کہتے ہوئے خاتون کے آنسو رواں تھے، اپنے گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے کہا ،’ ’ویسے بھی اس سب سے کسی کو کیا فرق پڑے گا؟‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آر ایس ایف والے کچھ لڑکیوں کو تو رات کے وقت گلیوں میں ہی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اُن کا ریپ کرتے ہیں اور اگر انھیں اس بازار سے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں دیر ہو جائے تو آر ایس ایف والے انھیں پانچ یا چھ دن کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔‘‘جب وہ یہ سب مُجھے بتا رہی تھیں تو اُن کی والدہ اور اُن کے ساتھ وہاں موجود دیگر خواتین بھی یہ سُن کر رونے لگیں۔ ان کی زبان حال بتا رہی ہے کہ اس دردناک اور شرمناک خانہ جنگی کے شکار نام نہاد اسلامی ملک سوڈان بری طرح سے لاقانونیت، لوٹ مار اور بربریت کی علامت بن گیا ہے۔ جنسی تشدد عام ہو چکا ہے۔ ریپ کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایف اور اس کے اتحادی جنگجوؤں کی جانب سے مسلسل جنسی تشدد کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ گرچہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، لیکن ہر طرف سرد مہری چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے، کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے۔ ‘‘ ان کا سوال ہے کہ’’ دنیا کہاں ہے؟ آپ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘