تاثیر 25 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
نئی دہلی : معروف علامتی افسانہ نگار اور “نئے دھان کا رنگ” جیسے عصری حسیت سے بھرپور ناول کے خالق علی امام کی دہلی آمد پر بزم افسانہ، نئی دہلی کی جانب سے منعقد استقبالیہ اجلاس کی صدارت الہ آباد سے تشریف لائے کہنہ مشق اور بزرگ افسانہ نگار اسرار گاندھی نے کی۔ افتتاحی گفتگو بزم افسانہ کے کنوینر احسان قاسمی نے کی، جس میں علی امام صاحب کے ادبی سفر کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا۔
صاحب تذکرہ علی امام صاحب نے اپنا مشہور علامتی افسانہ “نیں” پڑھ کر سنایا، جو کشن گنج، بہار کی مقامی سورجاپوری بولی میں “نہیں” کا متبادل لفظ ہے۔ اس منفی عنوان سے سماج کے ایک متروک طبقہ کی نمائندگی کر رہے کوڑھی فقیر کی المناک زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ افسانے میں اچھے دنوں کی امید میں جی رہے لوگوں کی اصل حقیقت اور ان کی فکری دو رنگی کا راز فاش کیا گیا ہے، ساتھ ہی اس کے برعکس، کوڑھی فقیر کے اندر معاشرے کے عمومی مزاج کی اصل حقیقت کا شعور ہونے کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فکری دو رنگی پر شدید طنز بھی ہے۔
سب سے پہلے اجلاس میں موجود بزرگ تخلیق کار اور علی امام کے معاصرین میں سے ایک عشرت ظہیر صاحب نے علی امام کے ناول ‘نئے دھان کا رنگ’ پر تحریری تبصرہ “زندگی کی تفسیر اور تقدیر” کے عنوان سے پیش کیا، جو ان کی تازہ ترین تصنیف “فکشن زاویے” میں بھی شامل ہے۔ 204 صفحات کے اس ناول میں قاری کو بین السطور میں جھانکنے سے اور بھی بہت سی چیزیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً گئو رکشک دل کی سرگرمیاں، تیج تہواروں میں دھوم دھام، ماضی کی یادوں کےحوالے سے زندگی کی زرین قدروں کی بازیافت کی کوشش، گنگا جمنی تہذیب کی پامالی پر افسوس، کھیل کود کے مقابلوں کا انعقاد، تہواروں کی سماجی جزئیات کا بیان ایک سماں باندھتا ہے۔ تقریبا دیڑھ درجن کرداروں کے حوالے سے یہ ناول زندگی کے مختلف رنگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ناول “ادب برائے ادب” اور “ادب برائے مقصد” کی ترجمانی کی بجائے “ادب برائے زندگی” کی سچی نمائندگی کرتا ہے۔
مجلس کے روح رواں اور بزم افسانہ، نئی دہلی کے کنوینر احسان قاسمی نے ترقی پسند تحریک اور کرشن چندر کے حوالے سے بات شروع کی اور پھر جدیدیت کی تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علی امام نے سب کا اثر قبول کیا، لیکن کسی کے علمبردار نہیں بنے، اپنے رنگ و آہنگ کے ساتھ آگے بڑھتے ریے اور ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کی پہچان علامتی اور تجریدی اظہاریہ کے امام کی ہے۔ انھوں نے ماضی میں علی امام کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ علی امام نے سوریہ پہاڑی قبیلہ کی سماجی زندگی پہ تحقیقی کام کیا ہے اور ذہنی طور وہ سماجیات کے ماہر ہیں، گرچہ 10 سال تک سائنس کے استاد رہے۔ جیو کلچرل سوشیالوجی ان کا محبوب موضوع ہے۔ اس پر ان کا قلم کافی رواں ہے۔
ناول “نئی فیکٹری” کے خالق ڈاکٹر ذاکر فیضی نے کہا کہ کافی عرصہ تک میں علی امام نقوی صاحب اور علی امام صاحب کو ایک ہی شخصیت سمجھتارہا تھَا۔مگر اب علی امام صاحب کو بخوبی پہچانتا ہوں۔ ان کی کئی کہانیاں مختلف رسائل میں پڑھی ہیں۔ ان کا ناول “نئے دھان کے رنگ” زیرِ مطالعہ ہے۔ انشاء اللہ پڑھ کر اس پر آئندہ گفتگو کروں گا۔
عبدالمنان، ایڈیٹر، ماہنامہ یوجنا (اردو) کو بھی اظہار خیال کا موقع دیا گیا، جس میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کی قدیم بلڈنگ براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ان کو دیکھ کر کنی کاٹ جانے پر معافی طلب کی اور کہا کہ افسانہ ‘نیں’ پڑھ کر آپ کی افسانہ نگاری کا شیدا ہوا۔ لیکن جب تک ایک ہی ضلع میں رہے، تب تک ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکا۔ اب تقریبا 25 سال کے بعد اس مجلس میں ملاقات ہو رہی ہے۔ انشاءاللہ آپ کی شان میں اور سیمانچل کی ادبی پہچان کے لئے بڑے پیمانے کی مجلس کا انعقاد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
بعد ازاں، دہلی یونیورسٹی سے فراغت یافتہ ڈاکٹر خان رضوان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی امام صاحب نے زندگی بھر اپنی سرگرمیوں سے ملت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ وہ گفتگو بھی علامتی انداز میں کرتے ہیں۔ ہم نئے افراد کے لئے آپ رہبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں آپ سے سے تحریک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپ کی خدمات پر تحقیقی کام کرکے شایان شان اعتراف کرنا چاہئے۔
مجلس میں موجود ریسرچ اسکالر ٹی ایم ضیاء الحق نے اپنے تاثرات میں فرمایا کہ جب علی امام کو پڑھا تو کافی متاثر ہوا اور اپنے دوست کاشف رضا کے توسط سے دہلی میں پہلی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ آپ کا ناول “نئے دھان کا رنگ” میں بہار کے قصبائی کلچر کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن موجودہ مخلوط کلچر اور جدید ماحول میں جب تاریخ کی بیش قیمت قدروں کی بات کی جائے تو حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اس کی تطبیق ضرور ہونی چاہئے۔ اس اعتبار سے ناول میں کہیں کہیں خلاء کا احساس ہوتا ہے۔ بہر کیف ناول منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ ناول کا ایک کردار، ایک ننھا سا پرندہ “گربہیا” بھی ہے، جس کا وزن محض 50 گرام ہوتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ جانکاری ہے۔ اس ناول کو ہم بیک وقت تاریخی اور تہذیبی دونوں کہہ سکتے ہیں۔
اخیر میں معروف فکشن نگار اسرار گاندھی نے اپنے صدارتی کلمات میں ادبی سفر کے آغاز کے حوالے سے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کہانیوں کا پہلا مجموعہ عشرت ظہیر کا پڑھا تھا، اس لحاظ سے میں ان کو اپنا سلف مانتا ہوں۔ اپنے دیگر ہمعصروں کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ 70 کی دہائی میں سامنے آئے تخلیق کاروں میں اب بہت کم لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ رسالہ “شب خون” اور “آہنگ” کے عروج کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ہمارا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ ہم کسی سے یہ کہیں کہ ایک مضمون میرے بارے میں لکھ دیجیے۔ یہی حال علی امام کا بھی ہے۔ زندگی لگا دینے کے بعد بھی بے توجہی کے شکار ہیں۔ انھوں نے آگے فرمایا کہ ہمیں دیگر زبانوں سے میل جول بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھیں بہار کے اردو تخلیق کارو! سے شکایت ہے کہ م ادب کے حوالے خود کو ایک کمرے میں بند کر رکھا ہے۔ انھیں اپنی دروں بینی اور دروں پسندی سے باہر آنا ہوگا اور پورے ملک میں پھیل کر اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر بات آکے نہیں بڑھے گی اور حاشیے پر دھکیل دیے جائیں گے۔ ان کی نصیحت تھی کہ اہل اردو کو دوسروں کے ادب، خاص کر ہندی ادب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ اس سے ذہن وسیع ہوگا۔
پروگرام 24 نومبر، 2024 کو ZEC کوچنگ سینٹر، گلی نمبر-22، شاہین باغ، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی-25 مین منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں مہمانوں کے علاوہ شاہد حبیبی
محمد نوشاد عالم، ڈاکٹر مصطفی علی اور محمد کیف حبیب اللہ موجود ریے۔ جگہ عنایت کرنے کے عوض کوچنگ سینٹر کے پروپرائٹر تحسین احمد صدیقی صاحب اور ان کے جملہ اراکین اور شرکاء کا شکریہ کے ساتھ مجلس برخاست کی گئی۔