تاثیر 25 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
سپریم کورٹ نےوطن عزیز بھارت کے آئین کے دیباچے میں موجود ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلزم ‘‘ الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں کو کل مسترد کر دیا ۔ یہ عرضیاں بی جے پی لیڈر اور راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی، اشونی اپادھیائےاورایڈوکیٹ وشنو شنکر جین اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔ ان عرضیوں میں 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے’’ سیکولر‘‘ اور’’ سوشلزم‘‘ جیسے الفاظ شامل کرنے کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے کہاگیا تھا کہ آئین کے دیباچے میں ان الفاظ کو جوڑنا پارلیمنٹ کو آرٹیکل 368 کے تحت حاصل ،آئین کی ترمیم سے متعلق اختیار کی نفی کرتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ الفاظ شامل کرنا غیر قانونی ہے۔ آئین بنانے والوں نے کبھی بھی یہ نہیں چاہا تھا سوشلسٹ یا سیکولر نظریات کو آئین شامل کیا جائے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے بھی ان لفظوں کو آئین میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر عرضیوں کو مسترد کر نے والے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’’ا ن عرضیوں کو تفصیل سے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔’’سوشلزم‘‘ اور’’ سیکولر‘‘ جیسے الفاظ 1976 میں آئینی ترمیم کے ذریعے شامل کیے گئے تھے اور اس سے 1949 میں اپنائے گئے آئین میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘‘
سماعت کے دوران اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے، درخواست گزار وکیل وشنو کمار جین نے نو ججوں کی آئینی بنچ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا۔انھوں نے آئین کے آرٹیکل 39(بی) پر نو ججوں کی بنچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئےکہ اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی آر کرشنا ائیر اور او چناپا ریڈی کی طرف سے کی گئی، لفظ ’’سوشلسٹ‘‘ کی تشریح سے اتفاق نہیں کیاتھا۔اس پر چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کا کہنا تھا کہ ’’بھارت کے تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں سوشلزم دوسرے ممالک سے بہت مختلف ہے۔ ہم سوشلزم کو بنیادی طور پر فلاحی ریاست سمجھتے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست میں اسے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کھڑا ہونا چاہیے اور برابری کے مواقع فراہم کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے 1994 کے ایس آر بومائی کیس میں ’’سیکولرازم‘‘ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دیا تھا۔‘‘ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے مزید دلیل دی کہ آئین میں 1976 کی ترمیم لوگوں کی بات سنے بغیر منظور کی گئی تھی کیونکہ یہ ایمرجنسی کے دوران منظور کی گئی تھی۔ ان الفاظ کو شامل کرنے کا مطلب ہے لوگوں کو مخصوص نظریات کی پیروی پر مجبور کرنا۔ ‘‘ انہوں نے اپنے دلائل میں یہ سوال بھی اٹھا یا کہ’’ جب دیباچہ کٹ آف ڈیٹ کے ساتھ آتا ہے تو اس میں نئے الفاظ کیسے شامل کیے جا سکتے ہیں ؟‘‘ اس پر بنچ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 368 پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اس کی توسیع میں دیباچہ بھی شامل ہے۔‘‘ اس معاملے کی سماعت پہلے سے سپریم کورٹ میں ہوتی رہی ہے۔18 نومبر کی سماعت کے دوران جسٹس سنجیو کھنہ نے ایڈووکیٹ وشنو شنکر جین سے پوچھا بھی تھا کہ ’’کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ ہندوستان سیکولر رہے؟’ ’سوشلزم‘‘ اور ’’سیکولرزم‘‘ الفاظ کی آج الگ الگ تشریحات ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری عدالتیں بھی انھیں بار بار بنیادی ڈھانچہ کا حصہ قرار دے چکی ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ کا کہنا تھا کہ’’ سوشلزم‘‘ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سبھی کے لیے مناسب مواقع ہونے چاہئیں، یہ مساوات کے نظریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے مغربی ممالک کی سوچ سے الگ سمجھیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ’’ سوشلزم‘‘ لفظ کے کچھ الگ معنی بھی ہو سکتے ہیں۔’’ سیکولرزم‘‘ لفظ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کا کہنا تھا اس ایشو پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی تھی۔ یہ آئین ساز اسمبلی میں پیش نظریہ کے خلاف ہے۔سماعت کے دوران عرضی دہندہ سبرامنیم سوامی کی دلیل تھی کہ آئین کے دیباچے میں جو تبدیلی ہوئی وہ حقیقی آئین کے مزاج کے خلاف ہے۔ سوامی نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ اپنی دلیل تفصیل سے رکھنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس معاملے میں تفصیلی سماعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے میں نوٹس جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہم 18 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتہ میں سماعت کریں گے۔در اصل سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت گزشتہ جمعہ (22 نومبر) کو ہی مکمل کرتے ہوئے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ فیصلہ 25 نومبر کو سنایا جائے گا۔معاملے کی سنوائی سپریم کورٹ نے21 اکتوبر کو بھی کی تھی۔تب بھی بنچ نے کہا تھاکہ ’’سیکولرازم‘‘ اور ’’سوشلزم‘‘ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ رہے ہیں۔ عدالت پہلے ہی اپنے کئی فیصلوں میں یہ واضح کر چکی ہے۔ ان الفاظ کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم ان الفاظ کو مغربی ممالک کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے ہندوستانی تناظر میں دیکھیں۔ ‘‘ اس معاملے کی سماعت 9 فروری کو بھی ہوئی تھی۔ سماعت کے دوران جسٹس دیپانکر دتہ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ دیباچہ میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے۔انھوں نےمتعلقہ وکلاء سے کہا تھا کہ وہ اس پر علمی نقطہ نظر سے غور کریں۔
واضح ہو کہ 1976 میں اندرا گاندھی حکومت نے 42ویں آئینی ترمیم کر کے آئین کے دیباچے میں’’ سیکولر‘‘ اور سوشلزم ‘‘ جیسے الفاظ شامل کیے تھے۔ اس ترمیم کے بعدآئین کے دیباچے میں بھارت کی نوعیت ’’خودمختار، جمہوری جمہوریہ‘‘ سے ’’خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری جمہوریہ‘‘ میں بدل گئی تھی۔ یہی تبدیلی دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ چنانچہ وہ ملک کو’’ ہندو راشٹر ‘‘ قرار دینے کے مطالبات کرتی آ رہی ہیں ۔اس کیلئے ملک کے سیکولر آئین میں بھی تبدیلی کی آواز اٹھائی جاتی رہی ہے ۔ کوشش تھی کے عدالت کا سہارا لیکر اپنے مقصد کو پورا کروالیا جائے ۔مگر کل سپریم کورٹ نے اپنے اس تاریخ ساز فیصلے کے ذریعہ ملک کے مزاج اور اس کے آئین کو بدلنے کی خواہش رکھنے والوں کی امیدوں پر پوری طرح سے پانی پھیر دیا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک کے تمام جمہور پسند اور سماجوادی نظریہ کے حامل عوام نے راحت کی سانس لی ہے۔