پٹنہ مہاویر مندر ٹرسٹ کے سکریٹری اور 1972 بیچ کے سابق آئی پی ایس افسر آچاریہ کشور کنال بھی چل بسے ۔ اتوار کی صبح 8 بجے دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ انہیں رات 2 بجے سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی تھی۔اس کے بعد انھیںمہاویر وتسالیہ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ 74 سالہ آچاریہ کشور کنال کے جسد خاکی کو پٹنہ کے گوسائین ٹولہ میں واقع ان کی رہائش گاہ ’’سیان نیلائم‘‘ میں رکھا گیا ہے۔ آخری رسومات آج دوپہر 2 بجے حاجی پور کے کنہارا گھاٹ پر ادا کی جائیں گی۔ ان کا آخری سفرآج صبح گیارہ بجے ان کی رہائش گاہ سے شروع ہوگا اور پٹنہ کے مہاویر مندر سے ہوتے ہوئے حاجی پور کنہارا گھاٹ کے لئے روانہ ہوگا۔
آچاریہ کشور کنال کو سماج، ثقافت اور روحانیت کے لیے وقف ایک بہتر انسان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک انتظامی افسر بلکہ ایک دھرم پرچارک اور سماجی مصلح کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتے تھے۔ آچاریہ کشور کنال کی زندگی تحریک، جدوجہد، تعلیم اور رفاہی خدمات کی زندہ مثال تھی۔ وہ 10 اگست 1950 کو بہار کے مظفر پور ضلع کے بروراج گاؤں کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد رام چندر شاہی ایک کسان اور سماجی کارکن تھے۔ والدہ روپ متی دیوی گھریلو خاتون تھیں۔ کشور کنال نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اور بروراج ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایل ایس کالج ، مظفر پور سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کشور کنال نے سول سروسز کی تیاری بھی شروع کر دی تھی ۔چنانچہ انھوں اپنی محنت اور لگن سے 1972 میں یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ وہ گجرات کیڈر میں آئی پی ایس افسر بنے۔ ان کی پہلی پوسٹنگ گجرات کے ضلع آنند میں ایس پی کے طور پر ہوئی۔ 1978 میں انہیں احمد آباد کا ڈپٹی کمشنر آف پولیس بنایا گیا۔ کشور کنال کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور سماج کی خدمت کرتے رہے۔ 1983 میں، انہیں پٹنہ کا ایس ایس پی بنایا گیا، جہاں انہوں نے امن و امان کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔آچاریہ کشور کنال نے 1990 سے 1994 تک وزارت داخلہ میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کے طور پر کام کیا۔ اپنی انتظامی کارکردگی اور دیانتداری سے وہ پولیس سروس میں ایک قابل احترام افسر بن گئے تھے۔
ایک مشہور مذہبی اور سماجی شخصیت کے طور پر، آچاریہ کشور کنال نے اپنے کاموں کے ذریعے ہندوستانی معاشرے میں اہم شراکت کی۔وہ مہاویر مندر ٹرسٹ کے سکریٹری کے طور پر دھارمک سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہے۔ اس کے علاوہ، وہ ایودھیا رام مندر ٹرسٹ کے رکن بھی تھے۔ رام مندر کی تعمیر میں بھی انھوں نے اہم کردارادا کیا۔ پٹنہ میں مہاویر مندر اور مہاویر کینسر اسپتال کی تعمیر میں بھی ان کا کلیدی رول تھا۔ آچاریہ کشور کنال نے صحت اور تعلیم کے میدان میں کئی اہم ادارے قائم کیے، جو معاشرے کی فلاح و بہبود میں ان کی شراکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے مہاویر کینسر انسٹی ٹیوٹ، مہاویر وتسالیہ ہاسپٹل، مہاویرنترالیہ اور گیان نکیتن اسکول جیسے ادارے قائم کیے، جو آج بھی ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے انہوں نے معاشرے میں طبی خدمات اور تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ان کی سماجی، ثقافتی اور تعلیمی خدمات کے پیش نظر انہیں سال 2008 میں، اس وقت کی صدر جمہوریہ پرتیبھا پاٹل نے انہیں مہاویر ایوارڈ سے نوازا تھا۔وی پی سنگھ کے دور حکومت میں انھیں ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایودھیا تنازعہ سے نمٹنے کے لیے 1990 میں وزیر مملکت برائے داخلہ کی قیادت میں ایک ’’ایودھیا سیل‘‘ قائم کیا گیا تھا۔مرکزی حکومت نے وشو ہندو پریشد اور بابری مسجد کمیٹی کے درمیان ثالثی کے لیے انھیں خصوصی افسر مقرر کیا تھا۔ سال 2000 میں کشور کنال نے ایک بڑافیصلہ لیا اور اپنی آئی پی ایس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا دل دماغ پوری طرح سے دھرم کی جانب مائل ہو چکا تھا۔چنانچہ انھوں نے سینئر پولس افسر کی ذمہ داری سے آزاد ہوکر اپنی زندگی کو پوری طرح سے دھارمک اور سماجک خدمات کے لیے وقف کر دیا۔ انہیں کے ایس ڈی سنسکرت یونیورسٹی، دربھنگہ کے وائس چانسلر کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ وہ 2004 تک پوری دیانتداری کے ساتھ اس عہدے پر فائز رہے۔
آچاریہ کشور کنال کوبہار اسٹیٹ دھارمک نیاس بورڈکا چیئرمین بھی بنایا گیا تھا۔اس حیثیت سے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔ اپنی مدت کار میں انھوں نے کئی اہم اصلاحات کیں۔ ریاست کے بڑے مندروں کو نیاس بورڈ سے جوڑ کر ان کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ اس کے علاوہ کشور کنال نے دلت برادری کے سادھوؤں کو مندروں کے پجاری بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ قدم سماجی مساوات اور مذہبی شمولیت کی جانب ایک بڑا قدم تھا، جس سے ہندو سماج میں مثبت تبدیلی آئی۔ ان کے کام نے انہیں معاشرے کے تمام طبقات سے عزت اور محبت حاصل کی۔ اس طرح آچاریہ کشور کنال اپنے آپ میں ایک سماجی تحریک کا ذریعہ بن گئے۔آچاریہ کشور کنال کے انتقال پر ملک کے متعدد سادھو سنتوں اور سینئر رہنماؤں سمیت وزیر اعلیٰ نتیش کمار، راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو یادو ،بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی ، بہار کے قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو اورمرکزی وزیر گری راج سنگھ سمیت دیگر کئی بڑے سیاسی رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیاہے۔سب کا یہی کہنا ہے کہ وہ ایک مؤثر منتظم اور حساس افسر تھے۔ ان کے انتقال سے انتظامی اور سماجی شعبوں میں ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔’’ روزنامہ تاثیر فیملی‘‘ بھی آچاریہ کشور کنال کی روح کے ابدی سکون اور ان کے جملہ متعلقین کے صبر و قرار کے لئے دعا گو ہے۔