سنگ دِلی اسلام کے مزاج کے خلاف

تاثیر  26  دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اسلام نے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کے ساتھ بندوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ انسان کا اللہ سے تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کی مخلوق سے محبت نہ کرے۔ اللہ کی محبوبیت کا حصول اس کی مخلوق سے اچھے سلوک کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ اللہ اپنی مخلوق سے ویسی ہی محبت کرتا ہے جیسے ایک ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا۔ جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا، اللہ اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ دنیا وآخرت میں اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث امت کو ہمدردی اور غمخواری کا درس دیتی ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق دوسرے کی مدد کرے۔ کوئی شخص بیمار ہو، مقروض ہو یا کسی اور پریشانی میں مبتلا ہو، تو اس کی مدد کرنا عین ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی بیمار شخص علاج کے لیے وسائل نہ رکھتا ہو، تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کے علاج کا بندوبست کیا جانا چاہئے۔یہ عمل نہ صرف اللہ کی رضا کا سبب بنتا ہے بلکہ آخرت میں بڑے اجر کا ذریعہ بھی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا واقعہ اس حوالے سے مشہور ہے۔ وہ مسجد نبوی میں اعتکاف میں تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان کے سامنے اپنی پریشانی بیان کی۔ اس شخص پر قرض تھا اور وہ اسے ادا کرنے سے قاصر تھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس کی مدد کے لیے مسجد سے باہر جانے کا ارادہ کیا۔ جب اس شخص نے کہا کہ آپ اعتکاف میں ہیں، تو آپؓ نے فرمایا: “میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لیے کوشش کرے، وہ دس سال کے اعتکاف سے افضل ہے۔‘‘ اسی طرح ایک خدا ترس شخص کا واقعہ ہے، جو حج کے ارادے سے روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے ایک بڑھیا کو مردہ مرغی اٹھاتے دیکھا۔ جب وہ اس کے گھر گیا، تو معلوم ہوا کہ اس کے بچے فاقہ زدہ ہیں۔ اس شخص نے اپنا سارا حج کا سرمایہ اس بڑھیا کے سپرد کر دیا اور واپس لوٹ آیا۔ اللہ نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور اسے حج کا اجر عطا فرمایا۔برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کا نام نمایاں ہے۔ ایک بار ایک کسان آپؒ کے پاس پہنچا اور دہلی کے سلطان کے کارندوں کی زیادتی کی شکایت کی۔ خواجہ صاحبؒ نے اس کی مدد کے لیے دہلی کا سفر کیا اور اس کی زمین واپس دلوا دی۔ آپؒ نے فرمایا:’’ جب تک انسان کسی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اللہ کی مدد اس کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدمت خلق ہی اصل ولایت ہے۔رسول اکرم ﷺ کی زندگی خدمت خلق کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔‘‘
نفع پہنچانے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً:غریبوں کی مالی مدد کرنا۔بیماروں کی عیادت اور ان کی دلجوئی کرنا۔یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنا۔ضرورت مندوں کے لیے روزگار یا قرض کا انتظام کرنا۔فاقہ زدہ لوگوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا۔یہ تمام اعمال اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں، اللہ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایسے افراد کی تعریف کی جاتی ہے، ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں، اور ان کے انتقال کے بعد بھی لوگ انہیں یاد رکھتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے، اور اللہ کو وہی شخص محبوب ہے جو اس کے عیال کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘‘ خدمت خلق کے چھوٹے چھوٹے اعمال بھی اہمیت رکھتے ہیں، مثلاً کسی کو راستہ دکھانا، کسی کا بوجھ اٹھانا، یا کسی کی مشکل کے حل کے لیے دعا کرنا۔ ان معمولی اعمال کے ذریعے بھی انسان اللہ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ قیامت کے دن یہ اعمال شفاعت کا سبب بن سکتے ہیں۔ایسے مخلص افراد جو خاموشی سے خدمت خلق میں لگے رہتے ہیں، معاشرے کے لیے روشنی کا مینار ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے کئی گھروں کے چولہے جلتے ہیں، بیواؤں اور یتیموں کو سہارا ملتا ہے، اور بیماروں کا علاج ہوتا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد لوگ ان کی کمی محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ہمیں اپنی زندگی کو دوسروں کی بھلائی میں صرف کرنا چاہیے۔ مالی مدد ممکن نہ ہو، تو جانی اور جسمانی تعاون کیا جانا چاہئے۔ یہ تمام اعمال خدمت خلق میں شامل ہیں اور مغفرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔خدمت خلق اللہ کا قرب حاصل کرنے اور نجات کا راستہ ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی عزت پاتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر ضرورت مند کی مدد کریں، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونا ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ساتھ ہی ہمیشہ یہ یاد رکھاجاناچاہئے کہ مزاج کی نرمی اور رحم دلی انبیائے کرام اور رسل عظام علیہم السلام کی صفت ہےاور سنگ دلی اسلام کے مزاج کے خلاف ۔