اَتل سبھاش : انصاف ابھی باقی ہے

تاثیر  17  دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار کے سافٹ ویئر( آرٹیفشیل انٹلیجنس) انجینئر اَتل سبھاش مودی خود کشی معاملہ پچھلے دس دنوں سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔  شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو اس کیس کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ حساس لوگ غصہ میں ہیں اورسبھاش کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔   اس معاملے میں پولیس جس طرح اپنا کام کر رہی ہے، اسے کچھ لوگ قابل تعریف کہہ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کا یہ الزام ہے کہ پولس جونپور (یوپی) کی فیملی کورٹ کی پرنسپل جج ریتا کوشک اور ان کے پیش کار مادھو کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔جن لوگوں نے اَتل سبھاش کے سوسائڈ نوٹ کو پڑھا ہے یا خود کشی کے ٹھیک قبل سوشل میڈیا پر شیئرکیا گیا ان کے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت کا ویڈیو دیکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کیس کے اہم ملزمان میں ریتا کوشک اور ان کے پیش کار مادھوبھی شامل ہیں ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پولس نے اس معاملے میں اہلیہ نکیتا سنگھانیہ، اس کی ماں نشا سنگھانیہ، بھائی انوراگ سنگھانیہ اور چچا سشیل سنگھانیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔جبکہ سبھاش نے اپنے سوسائڈ نوٹ میں عدالتی کارروائی سے متعلق ایک واقعہ بھی شیئر کیا ہے ۔ اہلیہ نکیتا سنگھانیہ 21 مارچ 2024 کو ریتا کوشک کے کیبن میں موجود تھی۔ بات ہی بات میں نے سبھاش نے جج صاحبہ سے کہا تھا’’میم، اگر آپ این سی آر بی کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو جھوٹے مقدمات کی وجہ سے لاکھوں لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔‘‘اس بات پر نکیتا نے بر جستہ کہا تھاکہ’’ تم خودکشی کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ نکیتا کے اس سوال پر جج صاحبہ ہنسنے لگی تھیں۔اس کے علاوہ سبھاش نے اپنے ویڈیو میں یہ بھی کہا ہے کہ اسی دن مقدمے کا سیٹلمنٹ کرانے کے لئے 5 لاکھ روپئے مانگے تھے۔ اس سے پہلے ان کے پیش کار نے کیس کو رفع دفع کرانے کے لئے 3 لاکھ روپئے کا مطالبہ کیا تھا۔  اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے والوں کاکہنا ہے کہ اگر فیملی کورٹ ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتی تواَتل سبھاش جیسا سمجھدار اور ذمہ دار نوجوان اپنی زندگی کو ختم کر دینے والا قدم قطعی نہیں اٹھا تا اور اس طرح بیک وقت دو خاندان اجڑنے سے پچ جاتے۔
      بہر حال مرنے سے پہلے اتل سبھاش نے خود ملزموں کے نام لے کر اور تمام ثبوت دے کر اپنی جان دے دی۔تاہم قانون صرف ایک فریق کو سن کر فیصلے نہیں کرتا۔ دونوں فریق کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا پورا حق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کیس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اتل کے ملزمان کو بلا تاخیر سخت ترین سزا دی جائے۔ اس معاملے میں تین گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔   پولیس ابھی اپنا کام کر رہی ہے۔ قانونی عمل کو مکمل ہونے میں تو وقت لگے گا ہی۔ اس کیس کی کہانی ایک دو نہیں بلکہ پانچ ریاستوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اتل نے کرناٹک کے بنگلورو میں خودکشی کی تھی۔ وہ سمستی پور، بہارکےرہنے وا لے تھے۔ ان کی بیوی نکیتا سنگھانیہ اتر پردیش کے جونپور کی رہنے والی ہیں۔ نکیتا دہلی میں کام کرتی ہے۔ اسے ہریانہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ فی الحال تین ریاستوں کرناٹک، یوپی اور ہریانہ کی پولیس اس معاملے کی تفتیش میں جٹی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 9 دسمبر کو اتل نے بنگلورو میں اپنے فلیٹ میں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی تھی۔ مرنے سے پہلے اس نے 24 صفحات پر مشتمل سوسائڈ نوٹ لکھا۔ ایک گھنٹے سے زیادہ طویل ویڈیو بھی بنائی۔  اس میں بیوی نکیتا، ساس نشا، بہنوئی انوراگ اور چچا سسر سشیل سنگھانیہ پر خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں، اتل نکیتا کیس کی سماعت کر رہی جونپور فیملی کورٹ کی جج ریتا کوشک اور ان کے وکیل مادھو پر بھی رشوت مانگنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اتل نے یہ بھی کہا ہے،’’ اگر مجھے انصاف نہیں ملتاہے،تو میر ے جسد خاکی کے راکھ کو عدالت کے آس پاس کسی گٹر میں بہا دیا جائے۔ 10 دسمبر کو، اتل سبھاش کیس میں بھائی وکاس کی جانب سے بنگلورو پولس میں چار لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔سب سے پہلے مقامی پولیس کھومنڈی میں نکیتا سنگھانیہ کے گھر پہنچی۔ وہاں ایک تالا لٹکا ہوا تھا۔  تمام ملزمان مفرور تھے۔ اس کے بعد بنگلورو پولیس جونپور پہنچ گئی۔ وہاں انہیں نکیتا کے گھر کے باہر ایک تالا بھی لٹکا ہوا ملا۔ بنگلورو پولیس نے اس نوٹ کو گھر کے باہر چسپاں کیا اور چاروں ملزمان کی تلاش شروع کردی۔ 13 تاریخ کو بنگلورو پولیس کو نکیتا کے گروگرام میں ہونے کی اطلاع ملی۔ اسے وہاں سے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ سرویلانس ٹیم کی مدد سے پتہ چلا کہ نکیتا کا بھائی اور ماں پریاگ راج واقع ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔  12 دسمبر کی رات، بنگلورو پولیس کے دو کانسٹیبل، ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کا روپ دھار کر، ایک رات اسی ہوٹل میں رہے۔ نکیتا کے بھائی اور ماں کی ہر حرکتوں پر نظر رکھتے رہے۔ پھر اسے اگلے دن یعنی 13 دسمبر کو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد تینوں کو پریاگ راج کی عدالت میں پیش کیا گیا۔یہاں سے پولس تینوں ملزمین کو بنگلورو لے گئی۔ اس وقت تینوں ملزمان جیل میں ہیں۔ عدالت نے انہیں 15 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔ لیکن چوتھا ملزم تاحال مفرور ہے۔ یہ نکیتا کے چچا سشیل سنگھانیہ ہیں۔  جب یہ چاروں فرار ہوگئے تھے تو انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی تھی۔سوموار ہائی کورٹ میں درخواست بھی منظور کر لی گئی۔ لیکن نکیتا، نشا اور انوراگ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا، کیونکہ وہ پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں۔اس سب کے درمیان لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا اتل سبھاش کو انصاف ملے گا؟   اتل کے والد پون مودی نے صاف کہہ دیاہے، ’’ اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو میں ا پنے بیٹے کےراکھ کو عدالت کے پاس گٹر میں پھینک دوں گا۔ اسی کے ساتھ میں بھی خودکشی کر لوں گا۔ اب ہمیں صرف انصاف کا انتظار کرنا ہے۔ اس لئے کہ انصاف ابھی باقی ہے۔‘‘