دہلی اسمبلی انتخابات سے متعلق تاریخوں کا اعلان کل کردیاگیا۔ 70 سیٹوں والی اس ریاست میں ووٹنگ 5 فروری کو ہوگی اور ووٹوں کی گنتی8 فروری کو ہوگی۔ دہلی کے انتخابی ماحول کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کا انتخابی مقابلہ در اصل عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہے۔مگر اس بار کئی چھوٹی پارٹیاں بھی سیاسی میدان میں اترنے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہی ہیں۔اسی تناظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سال 2020 میں دہلی میں فسادات ہوئے تھے۔ان فسادات میں شمال مشرقی دہلی کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔فسادات سے متاثر اس علاقے میں پڑنے والی کم از کم 10 اسمبلی سیٹوں کے انتخابات میں مسلم آبادی کا کافی اہم رول ہے۔ان 10 سیٹوں پر ایم پی اسد الدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ بھی الیکشن لڑنے کی تیاری میں ہیں۔اگر یہ پارٹیا ں دہلی کے چناوی میدان میں اترتی ہیں تو ظاہر ہے وہاں کے چناوی تانے بانے پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 2020 میں دہلی فسادات کے دوران عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین کا نام ملزم کے طور پر سامنے آیا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے انہیں مصطفی آباد سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کی دہلی یونٹ کے صدر ڈاکٹر شعیب جمائی کے حوالے سے آئی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی پارٹی دارالحکومت میں ان 10 سے 12 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے، جہاں مسلم آبادی اچھی تعداد میں ہے۔ ا ن کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی دہلی کا علاقہ پارٹی کی ترجیح ہے۔ ہم ایسی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کریں گے،جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 فیصد ہے، لیکن ہم ایسی سیٹوں پر بھی امیدوار کھڑے کرنے پر غور کر رہے ہیں، جہاں ہماری کمیونٹی کی آبادی25 فیصد ہے۔قابل ذکر ہے کہ دہلی کی سیلم پور اور اوکھلا سیٹوں پر مسلم رائے دہندگان کی آبادی بالترتیب57 فیصداور 52 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بابر پور اور مصطفی آباد میں مسلم کمیونٹی کی آبادی بالترتیب41 فیصد اور 39.5 فیصد ہے۔اسی طرح چاندنی چوک میں مسلم ووٹر30 فیصد اور سیما پوری میں23.5 ہیں۔واضح ہو کہ شمال مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ میں10 اسمبلی سیٹیں ہیں۔ ان میں سے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 7 جبکہ بی جے پی نے تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسری جانب بی ایس پی کی بات کی جائے تووہ دہلی کی تمام 70 اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے موڈ میں ہے۔ بی ایس پی 1993 سے دہلی میں مسلسل الیکشن لڑ رہی ہے۔ اس کی بہترین کارکردگی 2008 میں تھی،جب اس نے بدر پور اور گوکل پور کی سیٹیں جیتی تھیں۔اس کے بعد سے پارٹی کی کارکردگی مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ اب اس کی بھی حیثیت کسی خاص کمیونٹی کے ووٹوں کو اپنے کھاتے میں ڈلواکر کسی دوسری پارٹی کو فائدہ یا نقصان پہنچا نے تک محدودہو گئی ہے۔اس صورتحال کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ2015 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں نے17 سیٹوں پر جیت ہار کے فرق سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔بی ایس کے امیدواروں نے وہاں کے چناوی تانے بانے کو بہت متاثر کیا تھا۔مگر بی ایس پی کا دعویٰ ہے کہ اس بار بھی وہ مضبوطی سے الیکشن لڑیگی اور سیٹیں بھی جیتے گی ۔اے آئی ایم آئی ایم اور بی ایس پی کے علاوہ جے ڈی یو اس بار بھی دہلی کے چناوی میدان میں اترنے کے لئے تیار ہے۔مگر اس بار اس کی توجہ پوروانچل کے ووٹروں پر ہے۔ جے ڈی یو نے الزام لگایا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے کووِڈ وبا کے دوران پوروانچل کے باشندگان کے لیے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ جے ڈی یو کے قائم مقام صدر سنجے جھا کا کہنا ہے کہ ہم بی جے پی کے ساتھ سیٹوں کے تال میل کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پالم اور بدر پور دونوں سیٹیں ہمارے حصے میںآئیں گی۔2020 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو نے سنگم وہار اور براری سیٹوں سے مقابلہ کیا تھا۔اس میں جے ڈی یو کو بالترتیب 28 فیصداور 23 فیصد ووٹ ملے تھے۔
بہر حال دہلی اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی دہلی کی تینوں بڑی پارٹیوں، یعنی عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس،نے اپنی انتخابی مہم تیز کر دی ہے۔بر سر اقتدار عام آدمی پارٹی نے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی تمام 70 سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح اب تک بی جے پی نے 29 اور کانگریس نے47 امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ ان امیدواروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار ایسی کئی سیٹیں ہیں، جن میں مقابلہ کافی دلچسپ ہونے والا ہے۔اس الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی مہم کا سب سے بڑا چہرہ پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال خود ہیں۔ان کے بعدپارٹی کی سینئر لیڈر اور دہلی کی وزیر اعلیٰآتشی مارلینا سنگھ ہیں۔ان کے علاوہ منیش سسودیااورسنجے سنگھ جیسے چہرے بھی پارٹی کے اسٹار کمپینر ہوں گے۔جبکہ بی جے پی کی مہم کا سب سے بڑا چہرہ پی ایم نریندر مودی ہوں گے۔ انھوں نے تو پہلے سے ہی چناوی میدان میں مورچہ سنبھال لیا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ، پارٹی صدر جے پی نڈا کے ساتھ مقامی لیڈر پرویش ورما، رمیش بدھوری سے لے کر بنسوری سوراج تک اپنے اپنے علاقوں میں پارٹی کی جیت کے لیے کوئی کور کسر نہیں چھوڑنے والے ہیں۔ کانگریس جس نے کبھی دہلی پر اکیلے حکومت کی تھی، آج دہلی میں اپنی زمین کی تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس الیکشن میں پارٹی کی مہم کے سب سے بڑے چہرے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی ہوں گے۔ تاہم اب تک دونوں پبلسٹی سے دور رہے ہیں۔ مقامی چہروں میں ریاستی صدر دیویندر یادو، الکا لامبا، سندیپ ڈکشٹ جیسے چہرے اپنے اپنے علاقوں میں پارٹی کو جیت دلانے کی کوشش کریں گے۔لیکن حکومت تو عام آدمی پاٹی یا بی جے پی میں سے ہی کسی کی ہوگی۔ ویسے حکومت خواہ جس پارٹی کی بنے ، لیکن حکومت سازی کے مقام تک پہنچنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔