تاثیر 08 جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اسلام نے غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں خاندانوں اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو“ ۔ رنگ و نسل، زبان و بیان اور علاقائی فرق کے باوجود احترامِ انسانیت اس آیت کی بنیادی تعلیم ہے۔ اختلافات کے باوجود انسانیت کی تکریم ضروری ہے۔ اسلام کی حیرت انگیز تعلیم یہ ہے کہ وہ انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کو معاملات میں لازمی قرار دیتا ہے، ورنہ آخرت میں مواخذہ سے بچنا ممکن نہیں۔رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ جب آپس میں ملو تو سلام کرو۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ”اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے بہتر جواب دو یا انھی الفاظ کو لوٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ـ‘‘
اس تعلیم کا مقصد معاشرے میں حسن سلوک اور خوش اخلاقی کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ، تکریم انسانیت اور غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے اصول اسلام کے قانونِ جنگ میں بھی واضح ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو دفاع کا حق دیا لیکن ساتھ ہی اعلیٰ اخلاقیات کا پابند کیا۔ جنگ میں بھی عورتوں، بچوں، اور بوڑھوں کو نقصان نہ پہنچانے کی تاکید کی گئی اور دیگر مذاہب کے معابد اور ان کے علماء و پجاریوں کے احترام کی تعلیم دی گئی۔غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی اسلامی تعلیم صرف اصولی نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام نے عملی طور پر اس کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ میثاقِ مدینہ اس کی نمایاں مثال ہے، جس میں یہود کو مسلمانوں کے مساوی حقوق دیے گئے۔ یہودیوں کی شرارتوں اور میثاق مدینہ کی خلاف ورزیوں کے باوجود، نبی اکرم ﷺ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ سودی کاروبار اور دیگر اخلاقی کمزوریوں کے باوجود، آپ ﷺ نے ان سے معاہدہ کیا اور انہیں حقوق فراہم کیے۔اسلام نے عقائد، عبادات، اور معاملات کو واضح طور پر بیان کیا اور اخلاقیات کو بنیادی حیثیت دی۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ”دین میں کوئی جبر نہیں۔“
اسلام کی تعلیمات میں کہیں بھی مذہب قبول کرنے پر زور زبردستی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ہر فرد کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ خواہش ضرور تھی کہ سب لوگ اسلام قبول کریں، لیکن آپ ﷺ نے کبھی جبر سے کام نہیں لیا، کیونکہ یہ منشائے خداوندی کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیرِ امت قرار دیا تاکہ وہ نیکیاں پھیلائیں اور برائیوں سے روکیں۔ قرآن کہتا ہے: ”ہر برائی کا جواب بہترین طریقے سے دو، پھر تمہارا دشمن بھی تمہارا دوست بن جائے گا“۔رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی بے شمار مثالیں قائم کیں۔ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ ﷺ کھڑے ہو گئے۔ حضرت صفیہ کو حضرت زینب نے یہودیہ کہہ کر اونٹ دینے سے انکار کیا تو آپ ﷺ ناراض ہوئے۔ ایک یہودی نے قرض کے لیے بدتمیزی سے تقاضا کیا تو حضرت عمرؓ نے اسے خدا کا دشمن کہا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نرمی سے پیش آؤ اور اس کو سمجھاؤ۔یمن کے حملے میں حاتم طائی کی بہن گرفتار ہوئیںتوآپؐ نے فوراًان کو عزت کے ساتھ رخصت کیا۔نجران کا ایک وفد آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور انہیں اپنے طریقے پر عبادت کرنے کی اجازت دی۔ نجران کے عیسائی وفد کو آپ ﷺ نے مسجد میں ٹھہرایا اور انھیں اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اسلام نے غیر مسلم ماں باپ، پڑوسیوں، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تلقین کی ہے۔ ایک اور موقع پر فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے“۔ اسلام نے انسانی رشتوں کو قائم رکھنے کی تاکید کی ہے۔اسلام نے حسن اخلاق کو دعوت دین کے اہم ذریعہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کا کام ہے کہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کریں اور اپنے حسن سلوک سے ان کے دل جیتیں۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے، لیکن مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حسن اخلاق اور بہترین عمل کے ذریعے دین کی دعوت دیں۔اسلام کا پیغام انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لئے ہے۔ احترامِ انسانیت اور غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں۔ یہی تعلیمات معاشرے میں امن، ہم آہنگی،اور باہمی محبت پیدا کرتی ہیں اور اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔
لہٰذا، آج کی ضرورت ہے کہ قرآن شریف کی اُن آیات کریمہ کو ترجیحی بنیاد پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے، جو انسانیت اور مساوات کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔اس کے علاوہ حضور ﷺ نے جس طرح عملی طور پر رنگ و نسل کے امتیازات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل کی ، اسی طرح آج کے معاشرے کو بھی تمامترآلودگیوں سے پاک کرنے کی کوشش کی جائے، مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مکالمہ جاری رکھتے ہوئے مشترکہ انسانی اقدار کی بنیاد پر کام کیا جائے۔اسکولوں، کالجوں،مدرسوں، خانقاہوں، مسجدوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی مہمات چلائی جائیں جو اخوت، اتحاد اور انسانیت کے فروغ پر مرکوز ہوں۔ چھوٹے موٹے تمامتر ذاتی،سماجی اور مسلکی اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کا مظاہر ہ کیا جائے۔یقین جانیں ہمارے یہی اقدامات اسلامی تعلیمات کے حقیقی پیغام کو عام کرنے اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔یقین جانیں،اقتضائے حالات کا بھی یہی تقاضہ ہے۔
********