تاثیر 20 فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً اجتماعیت پسند بنایا ہے، اور اسی بنا پر معاشرت اس کی زندگی کا لازم حصہ ہے۔ انسان اپنے مقام و مرتبہ کے حصول کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتا ہے۔ بہترین معاشرہ تبھی تشکیل پاتا ہے جب افراد سازی عمدہ ہو، کیونکہ فرد ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ مثالی معاشرے اعلیٰ اخلاقی اقدار، عدل و انصاف، اور مضبوط معیشت کی بنیاد پر ہی استوار ہوتے ہیں۔معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ ناقص افراد سازی ہے۔ افراد سازی میں اگر معاشی ترقی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جائے اور اخلاقی و سماجی تربیت نظر انداز ہو جائے، تو نتیجہ اخلاقی زوال، عدل و انصاف کی کمی، اور انتشار کی صورت میں نکلتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مادی ترقی کے باوجود معاشرتی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ رشتوں میں محبت و احترام کی جگہ عناد اور دشنام نے لے لی ہے۔ شرم و حیا کی جگہ بے حیائی، حسن سلوک کی جگہ بد سلوکی، عدل کی جگہ ظلم اور ذکر و عبادت کی جگہ رقص و سرور نے لے لی ہے۔
افراد سازی کے لئے صرف اداروں پر انحصار کافی نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ والدین، اساتذہ، علماء، تاجر اور سماجی ذمہ داران سب کو مل کر اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انفرادی کوششیں ناکام ہو کر مایوسی میں بدل جائیں گی، اور معاشرہ مزید زوال کا شکار ہوگا۔ والدین کی کوتاہی بچوں کی تربیت کو متاثر کرے گی، اساتذہ کو طلبہ میں غیر سنجیدگی نظر آئے گی، اور رہنما اپنی قوم کو گمراہ ہوتا دیکھ کر پریشان ہوں گے۔معاشرتی اصلاح کے لیے حقوق طلبی کے بجائے فرائض کی ادائیگی پر زور دینا ہوگا۔ آج ہر فرد اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس رہ گیا ہے کہ اگر ہر کوئی اپنے فرائض ادا کرے تو حقوق خود بخود مل جائیں گے۔ والدین کے فرائض بچوں کے حقوق پورے کرتے ہیں، اور اولاد کے فرائض والدین کے حقوق۔ حاکم و محکوم، امیر و غریب، شوہر و بیوی، سب کے باہمی فرائض ہی ان کے حقوق کی ضمانت بنتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات اسی اصول پر مبنی ہیں کہ ہر شخص اپنے فرائض ادا کرے تاکہ دوسروں کے حقوق خود بخود انھیں مل جائیں۔اسلام نے افراد اور معاشرے کے درمیان ایک توازن قائم کیا ہے، جس کی بنیاد پر نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی فلاح ممکن ہو سکتی ہے۔ ہر فرد کو اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ پہلے اپنے فرائض ادا کرے تاکہ دوسرے کا حق پورا ہو۔ مثال کے طور پر اگر ایک تاجر ایمانداری سے تجارت کرے، جھوٹ نہ بولے، ملاوٹ سے بچے، اور لوگوں کو مناسب نفع پر اشیاء فراہم کرے تو یہ اس کا فرض ہے۔ جب وہ اپنے فرض کو پورا کرے گا تو صارف کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے اور معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ اسی طرح ایک حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کرے، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے، کرپشن سے بچے، اور میرٹ کو فروغ دے، تبھی عوام کو ان کے حقوق حاصل ہوں گے۔ازدواجی زندگی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ شوہر اور بیوی اگر اپنے اپنے فرائض ادا کریں تو دونوں کے حقوق خود بخود محفوظ ہو جائیں گے۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے، اس کے حقوق ادا کرے، اس کی عزت کرے اور اس کے اخراجات پورے کرے۔ دوسری جانب بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرے اور ازدواجی زندگی کو محبت اور ایثار سے نبھائے۔ جب دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کریں گے تو ازدواجی زندگی خوشحال ہو گی اور رشتے مضبوط ہوں گے۔
معاشرتی عدل و انصاف کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی کو اولین ترجیح دیں۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرے تو ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا ،جس میں کوئی استحصال نہ ہوگا، کوئی ظلم نہ ہوگا اور ہر فرد کو اس کا حق ملے گا۔ آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں تو بہت حساس ہے لیکن جب فرائض کی بات آتی ہے تو غفلت برتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مختلف مسائل سے دو چارہے۔تعلیم کا نظام بھی اسی اصول پر استوار ہونا چاہیے۔ طلبہ کا فرض ہے کہ وہ محنت اور دیانت داری سے علم حاصل کریں، اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنے علم کو منتقل کریں اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بہترین تربیت فراہم کریں۔ جب یہ سب اپنے اپنے دائرہ کار میں فرائض ادا کریں گے تو ایک علمی، اخلاقی اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔اسلامی تعلیمات میں ہمیں حقوق و فرائض کی ایک متوازن مثال ملتی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی بھی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، جس میں آپ ﷺ نے اپنے تمام معاملات میں حقوق اور فرائض کے درمیان ایک بہترین توازن قائم کیا۔اگر ہم ایک صالح اور ترقی یافتہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی اصولوں پر مبنی حقوق و فرائض کے باہم پیوست نظام کو اپنانا ہوگا۔ یہی نظام افراد سازی میں ہمہ جہت ترقی کا ضامن ہے اور اسی کے ذریعے ہم ایک مضبوط، منصفانہ اور خوشحال معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔چنانچہ ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائے تاکہ دوسروں کے حقوق محفوظ رہیں۔ اسی اصول پر عمل کر کے ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جہاں انصاف، رواداری اور مساوات کا بول بالا ہو۔