شعبہ سوشل ورک،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سوشل ورک میں قصہ گوئی کے موضوع پر اجلاس کا انعقاد

تاثیر 06  فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

            آج تک پوڈکاسٹ کے ممتاز قصہ گو اور سینئر ایڈیٹر جناب جمشید قمر صدیقی نے ’تبدیلی کے لیے بیانیے: سوشل ورک میں قصہ گوئی‘ کے موضوع پر مورخہ تین فروری دوہزار پچیس کو شعبہ سوشل ورک،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سمینار روم میں ایک دلچسپ سیشن کیا۔اجلاس میں طلبہ،المنائی اور فیکلٹی اراکین سمیت سو سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔

             پروفیسر نیلم سکھرامنی، صدر شعبہ،سوشل ورک،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنی افتتاحی گفتگو میں مختلف و متنو ع ماحول میں قصہ گوئی اور سوشل ورک کے درمیان باطنی رشتوں پر زور دیا۔ انھوں نے تخلیقیت اور حساس موضوعا ت پر بحث شروع کرنے کے سلسلے میں قصہ نویسی کے پوشیدہ امکانات پر اظہار خیال کیا۔جناب اسرارحق جیلانی نے جناب صدیقی کو سامعین سے متعارف کرایا اور ہمارے شعور کو متحرک کرنے اور اسے وسعت دینے میں کہانیوں کے گہرے اثرات کو بتایا۔انھوں نے کہا کہ قصہ گوئی اور سوشل ورک ایک مشترکہ ڈھانچہ ساجھا کرتے ہیں جسے چار پیز یعنی پلاٹ،افراد،مسئلہ اور مقام۔

            پروفیسر جمشید قمر نے سوشل ورک اور قصہ گوئی کے درمیان تعلق کو دو اہم بیانیوں ایک کووڈ لاک ڈاؤن کے متعلق عمومی بیانیہ اور دوسرا تبدیل ہوتے ذاتی تجربات کے توسط سے اپنی گفتگو واضح کیا۔کہانی کے بیان سے سامعین نے بہت ہم آہنگی محسوس کی جس میں بتایا گیا کہ قصہ گوئی کیسے دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کے سوشل ورک کی اہم قدر سے ہم آہنگ دنیا کو دوسروں کے تجربات سے سمجھنے کا نظریہ دیتی ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس طرح کہانیوں کی اصلی بات تنازع سے حل کی طرف سفر میں پوشیدہ ہے فن قصہ گوئی کے سلسلے میں کافی اہم اور موثر باتیں بتائیں۔ جناب صدیقی کے پوسٹ کاسٹ بعنوان ’اے ڈاگ ودآؤٹ اے نیم‘ میں ایک پُر اثر کہانی تھی جس نے سامعین کو بہت متاثر کیا اورمثبت تبدیلیوں کے لیے عوام کو متحرک کرنے کے سلسلے میں قصہ گوئی کی طاقت کو نشان زد کیا۔

            سماجی مسائل کو محسو س کرنے کے سلسلے میں قصہ گوئی کو ایک موثر اور کارگروسیلے کے طورپرزور دیتے ہوئے انھوں نے اپنی بات مکمل کی۔انھوں نے دلیل دی کہ بہت سارے عالمی مسائل اور تنازعے نظریے کے تصادم سے پنپے ہیں اور قصہ گوئی افراد میں دوسروں کے نقطہ نظر سے دنیاکو دیکھنے کااہل بناکر ان میں دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کا جذبہ فروغ دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دوسروں کا درد محسوس کرنا زیادہ خوش گوار دنیا کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔ان کی گفتگو کے بعدمذاکراتی سیشن ہوا اور طلبہ کے ساتھ سوال وجواب کا سیشن بھی ہوا۔

            ڈاکٹرہیم بورکر، سیشن کے فیکلٹی کوآرڈی نیٹر نے اختتامی تقریر میں جس میں انھو ں نے بتایا کہ انسان کیسے بنیادی طورپر قصہ گوئی والی مخلوق ہے اور اسے اجاگر کیا کہ کہانیوں کی طویل تاریخ ہے جو ہمیں بامعنی کام کرنے اور خود سے زیادہ بڑی چیز کا حصہ بننے کے لیے متحرک کیا ہے۔پورے سیشن کو طلبہ یعنی حمیرا،فرحت،ہدا،سمیر اور ایلبی نے آرڈینیٹ کیا جو کہانیاں سنانے کے حقیقی ماحول میں رکھے گئے تھے۔

            اجلاس کافی کامیاب رہا اور شرکا کو اس کی تحریک ملی کہ وہ اپنے سوشل ورک پریکٹس میں قصہ گوئی کو شامل کریں اور دوسروں کا درد محسوس کرنے اور سماجی تبدیلی لانے کی اس کی قوت سے فائدہ اٹھا سکیں۔