سب کو 8 فروری کا انتظار ہے

تاثیر 04  فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

آج5 فروری ہے۔دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں کے لیے آج ووٹنگ ہونے والی ہے۔جب (3 فروری کی شام 5 بجے)سے یہاں انتخابی مہم ختم ہوئی ہے، تب سے بیشتر رائے دہندگان نے چپی سادھ لی ہے۔ جیت اور ہار کی قیاس آرائیاں کرنے والے مبصرین بھی پریشان ہیں ۔حالانکہ بر سر اقتدار عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان تقریباََ تمام سیٹوں پر سیدھا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو کانگریس بھی اپنا کھاتہ کھول سکتی ہے۔ ویسے بی جے پی کی چناوی مہم اتنی دھاردار رہی ہے کہ عام آدمی پارٹی کو شروع سے ہی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس بار معاملہ کچھ گڑ بڑ ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اروند کیجریوال نے سیٹوں کی تعداد کو لے کرکبھی بڑ بولے پن سے کام نہیں لیا۔ وہ پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس بار عام آدمی پارٹی کو کم سیٹیں ملیں گی،تاہم ان کواس بات کا یقین تھا کہ اگر خواتین ووٹرز کا ساتھ مل جائے تو تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔اروند کیجریوال نے چناوی مہم کے آخری مرحلے میں پوری طرح یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کے مطابق عام آدمی پارٹی کو کم سیٹیں ملنے کا مطلب ہے 55 سیٹوں پر کامیابی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اگر دہلی کی خواتین چاہیں اور محنت کریں تو یہ تعداد 60 بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی سیٹوں کی موجودہ تعداد سے 2 کم ۔ ذہن نشیں رہے کہ اروند کیجریوال کو 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں 62 سیٹیں ملی تھیں۔
اپنی شروعاتی انتخابی مہم کے دوران اروند کیجریوال اکثر کہا کرتے تھے کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت بنے گی، لیکن کچھ سیٹیں کم ہو سکتی ہیں۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے 45-50 سیٹیں ملیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہر ماں اور بہن شامل ہوں تو 65 سے زیادہ مل سکتی ہیں، لیکن، اب وہ زیادہ سے زیادہ 60 سیٹوں کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کے ’’آپریشن لوٹس‘‘ کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے دہلی کی خواتین سے اپیل کی تھی، یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس میں شامل ہوں اور ایک مضبوط حکومت بنائیں۔ اگر وہ کم سیٹوں سے جیت جاتے ہیں تو وہ حکومت کو توڑ دیں گےوہ ہمارے ایم ایل اے کو توڑ دیں گے۔چناوی مہم کے دوران اروند کیجریوال نے ای وی ایم پر بھی سوال اٹھائے تھے۔عام آدمی پارٹی کے لیڈر کیجریوال نے دہلی کے لوگوں سے بی جے پی کے مبینہ’’ ای وی ایم گیم‘‘ کو شکست دینے کے لیے عام آدمی پارٹی کو پرجوش طریقے سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہتے تھے، ’’ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ مشینوں کے 10 فیصد ووٹوں کو بگاڑ سکتے ہیں، اس لئے آپ لوگ جھاڑو کو اتنا ووٹ دیجئے گا کہ عام آدمی پارٹی کو 10 فیصد سے زیادہ کی برتری حاصل ہو۔‘‘
دہلی کے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کے سینئر لیڈ ر اور سابق ڈپٹی سی ایم منیش سسودیا کے الیکشن ہارنے کے چرچے پر بھی کبھی اظہار خیال کیا تھا۔انھوں نے کہا تھا ’’ بی جے پی دعویٰ کر رہی تھی کہ عام آدمی پارٹی تین سیٹوں پر پھنسی ہوئی ہے۔ نئی دہلی، جنگ پورہ اور کالکاجی۔ آپ دیکھیںگے، عام آدمی پارٹی یہ سیٹیں تاریخی فرق سے جیتنے والی ہے۔‘‘ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عام آدمی پارٹی کے رہنما خود نئی دہلی کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔اروند کیجریوال کے خلاف بی جے پی کے پرویش ورما اور کانگریس کے سندیپ دِکشت میدان میں ہیں۔ جنگ پورہ وہ سیٹ ہے، جہاں سے منیش سسودیا آپ کے امیدوار ہیں۔ اوردہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی کالکاجی سے الیکشن لڑ رہی ہیں، ان کا مقابلہ بی جے پی کے رمیش بدھوری اور کانگریس کی الکا لامبا سے ہے۔ان سبھی امیدواروں اور ان کی پارٹی کی کارکردگی کے بارے میں دہلی کے رائے دہندگان کو سب کچھ معلوم ہے۔ مگر امیدواروں کو یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ اکثریت کس کا ساتھ دیگی۔ حالانکہ سب کا دعویٰ یہی ہے کہ رکارڈ ووٹوں سے ان کی جیت یقینی ہے۔
اِدھر دہلی میں ووٹنگ سے پہلے سی ووٹر سروے بھی سامنے آ چکا ہے۔ سی ووٹر نے دہلی کے لوگوں سے پوچھا تھا کہ کیا وہ حکومت بدلنا چاہتے ہیں؟ سروے کے مطابق یکم فروری تک موصول ہونے والے جوابات میں 43.9 فیصد لوگ دہلی کی موجودہ حکومت کے کام کاج سے ناراض ہیں اور اب تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسی طرح 10.9 فیصد لوگ کام سے ناخوش ہیں، لیکن حکومت بدلنا نہیں چاہتے۔ ہاں، 38.3 فیصد لوگوں کو نہ تو حکومت سے کوئی ناراضگی ہے اور نہ ہی وہ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ایسے میں عام آدمی پارٹی کے لیے تشویش کی بات صرف یہ ہے کہ سی ووٹر کے موجودہ ٹریکر کے مطابق ایک طرف 43.9 فیصد لوگ حکومت کے کام کاج سے عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری طرف بی جے پی اور کانگریس دہلی میں ایسے ووٹروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ متحد ہو جائیں تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ عام آدمی پارٹی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ سی ووٹر نے اس سے پہلے بھی 6 جنوری کو اپنے ایک پری پول سروے کے نتائج کا اعلان کیا تھا۔ تقریباً ایک ماہ کے وقفے سے کیے گئے دونوں سروے کے نتائج کا موازنہ کرنے پر ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے غصے میں قدرے کمی آئی ہے۔ پہلے46.2 فیصد لوگ حکومت سے ناراضگی کی وجہ سے دہلی میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے تھے، لیکن اب صرف 43.9فیصد لوگ ایسے ہیں۔دھیان رہے، عام آدمی پارٹی کو 2013 کے پہلے انتخابات میں 28 اسمبلی سیٹیں ملی تھیں۔ تب بی جے پی کو 32 سیٹیں ملی تھیں۔ 36 کے اکثریتی اعداد و شمار سے چار قدم کم ہونے کے باوجود، بی جے پی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔2015 اور 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اروند کیجریوال کی پارٹی کو 70 میں سے بالترتیب 67 اور 62 سیٹیں ملی تھیں۔ دہلی میں انتخابی مہم 3 فروری کی شام 5 بجے ختم ہو گئی تھی۔ آج پورے چاک و چوبند ماحول میں اسمبلی کی 70 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہونے والی ہے۔ ووٹوں کی گنتی 8 فروری کو ہونی ہے اور اسی دن نتائج کا اعلان بھی متوقع ہے۔ ویسے پی ایم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈر دہلی کے رائے دہندگان سے یہ کہہ چکے ہیں کہ8 فروری کو ’’وجے دیوس‘‘ منانے کے لئے ابھی سے تیار رہیں۔مگرحتمی فیصلہ تو 8 فروری کو ہی ہونے والا ہے۔ اسی دن دیکھنا ہے کہ ’’وجے دیو س ‘‘ کون سی پارٹی مناتی ہے۔سب کو 8 فروری کا انتظار ہے۔
****************