غالب اکیڈمی میںمحفل کلام غالب کا انعقاد

تاثیر 22  فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

نئی دہلی،22 فروری:وزارت ثقافت حکومت ہندکے تعاون سے غالب کے156ویں یوم وفات اور غالب اکیڈمی کے56ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں محفل کلام غالب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر بیگم اختر کی سب سے کم عمر شاگردہ سینئر غزل سنگر ریکھا سوریہ نے کہا کہ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں صوفیانہ عشقیہ مضامین کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام موضوعات فلسفہ اور سیاست پر بھی شعر کہے گئے ہیں، غالب کی عشقیہ غزلیں گانے کے لیے بہت موزوں ہوتی ہیں ۔اس موقع پر جیسس میری کالج کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انوپما سریواستو نے مترنم آواز میں کئی غزلیں پیش کیں ،جن میں یہ’’ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا،نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے،آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک، کوئی امید بر نہیں آتی، دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی، درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے وغیرہ‘‘ انوپما نے اس انداز میں غزلیں پیش کیں جس سے سامعین نے خوب داد دی۔ طبلے پر تنویر احمد خان پر ساتھ دیا اورہارمونیم پر منیش شرما،گیٹار پر شمّی نے ساتھ دیا۔
اس موقع پر غالب اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر جی آر کنول نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب کے زمانے میں موسیقی کا رواج تھا خود غالب کی غزلیں ان کے زمانے میںگائی جاتی تھیں۔ غالب کو بھی موسیقی کا علم تھا اس لیے سنگر کو طرز بنانے میں آسانی ہوتی ہے غالب کی غزلیں گانے سے آرٹسٹ کی شہرت ہوجاتی ہے۔ اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ اس پروگرام کی نظامت کشفی شمائل نے کی۔اس محفل میں متین امروہوی ، ظہیر برنی ،آلوک گئے چند،کمال الدین،ڈی آر گوتم اور کالج کے طلبا موجود تھے۔