تاثیر 07 فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
آج دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے والے ہیں۔دہلی کے عوام نے چوتھی بار عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا ہے یا طویل عرصے سے خشک سالی کا سامنا کرنے والی بی جے پی کی جھولیاں بھری ہیں، آج اس پر سے پردہ اٹھنے والا ہے۔ ویسے اگر انتخابات کے بعد سے جاری قیاس آرائیوں کی بات کی جائے تو ان کے مطابق بی جے پی کی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔بی جے پی ان قیاس آرائیوں سے بے حدخوش ہے۔ بس جلیبیاں بنٹنی باقی ہے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ ہمیں توقع سے زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ جبکہ عام آدمی پارٹی نے قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ سٹے بازی کے بازار میں بھی دہلی کی اگلی حکومت کو لے کر جوش و خرو ش بڑھا ہوا ہے۔ دہلی، ممبئی، پھلودی اور گجرات کے سٹے بازاروں نے بھی اپنے حساب سے یہ بتا دیا ہے کہ دہلی کی جنگ کون سی پارٹی جیتے گی۔ دہلی سٹہ بازار کے مطابق، راجدھانی میں ایک بار پھر عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔اس نےعام آدمی پارٹی کو 38-40 سیٹیں، بی جے پی کو 30-32 سیٹیں اور کانگریس کو صفر سیٹ دی ہے۔ گجرات سٹہ بازار کے مطابق بھی دہلی میں ایک بار پھر کیجریوال کی حکومت بن رہی ہے۔ اس نے پیشین گوئی کی ہے کہ عام آدمی پارٹی کو 38-40 سیٹیں ملیں گی۔ وہیں بی جے پی کو 30-32 سیٹیں ملیں گی ،جبکہ کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملے گی۔ راجستھان کا مشہور پھلودی سٹے بازی کا بازار کانگریس کے لیے اچھی خبر لے کر آیا ہے۔ اس نے پیشین گوئی کی ہے کہ کانگریس 10 سال بعد دہلی میں اپنا کھاتہ کھولے گی۔ عام آدمی پارٹی کو 37-39 سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے ،جبکہ بی جے پی کو 32-34 سیٹیں کی بات کہی جا رہے ۔ ممبئی سٹہ بازار کے مطابق بھی دہلی میں آپ کی حکومت بن رہی ہے۔ تاہم، اس نے دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کا ازارہ کیاہے۔
سٹہ بازار کے بر عکس ، دو روز قبل آئے ایگزٹ پول 27 سال بعد بی جے پی کی شاندار واپسی کا اشارہ دے رہے ہیں۔حالانکہ فیصلہ سامنے آنے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے ۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹوں کی گنتی آج صبح 7 بجے شروع ہوجائےگی۔ ابتدائی رجحانات صبح 7:30 بجے سے آنا شروع ہوجائیں گے، لیکن سیٹ کے حساب سے جیتنے والوں کا اعلان دن بھر کیا جائے گا۔ شام چھ بجے تک ووٹوں کی گنتی ختم ہونے کا امکان ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی اسمبلی کے انتخابات بدھ، 5 فروری، 2025 کو ہوئے تھے، جن میں کل 699 امیدوار 70 سیٹوں کے لیے لڑ رہے تھے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار 60.42 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات میں عوام نے کافی دلچسپی لی تھی۔ اس کے بعد سے ہی نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کی نظریں آج کے نتائج پر مرکوز ہیں۔تمام لوگ یہ دیکھنے کے لئے بے قرار ہیں کہ دہلی پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ بر قرار رہتا ہےیا بی جے پی کی اقتدار میں واپسی ہو رہی ہے۔واضح ہو کہ دہلی انتخابات 2025 میں کل 699 امیدوار مقابلے میں ہیں۔ مقابلہ پچھلے بدھ کو ایک ہی مرحلے میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس الیکشن میں تین بڑی پارٹیاں آمنے سامنےتھی ۔ عام آدمی پارٹی،بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس۔ دہلی میں حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی کو کم از کم 36 سیٹیں جیتنی ہوں گی۔ دہلی کے انتخابی میدان میں کئی سینئرلیڈر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نئی دہلی کی سیٹ پر بی جے پی کے پرویش ورما اور کانگریس کے سندیپدکشت کے مقابل ہیں۔ کالکاجی سیٹ پر آپ کی موجودہ وزیر اعلیٰ آتشی کو کانگریس کی الکا لامبا اور بی جے پی کے رمیش بدھوری سے سخت مقابلہ ہے۔ جنگ پورہ سیٹ پر آپ کے منیش سسودیا کا مقابلہ بی جے پی کے ترویندر سنگھ مرواہ اور کانگریس کے فرہاد سوری سے ہے۔ شکور بستی سیٹ سے بی جے پی کے کرنیل سنگھ سینئر عام آدمی پارٹی لیڈر ستیندر جین کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اِدھر ایگزٹ پول کے حوالے سے ، عوام کے درمیان دو روز قبل سے ہی یہ سوال گشت کر رہا ہے آخر اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کی قسمت کیسے خراب ہو گئی ؟ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس نے خود کوئی سیٹ نہیں جیتی، لیکن کجریوال کو ڈبونے کا پورا انتظام کر دیا۔ اِس بات کی نشاندہی پارٹیوں کو ملنے والی ووٹنگ فیصد سے بھی ہوتی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو 53.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔ لیکن میٹریلائز کے ایگزٹ پول میں اس بار عام آدمی پارٹی کو 44 فیصد ووٹ ملتے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ 2020 میں 38.5 فیصد حاصل کرنے والی بی جے پی کو 46 فیصد ووٹ ملنے کا اندازہ ہے۔ تب کانگریس کو صرف 4.23 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن میٹریلائز کے ایگزٹ پول میں کانگریس کواس بار 08 فیصد ووٹ حاصل کرتے دکھایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کے ووٹوں میں8 فیصدکااضافہ ہوا ہے، جبکہ کانگریس کے ووٹوں میں4 فیصدکا۔ اس کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی 53.8 فیصد سے گھٹ کر 44 فیصد پر آگئی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ 2020 کے مقابلے اس کے ووٹ میں تقریباً 10 فیصد کمی آئی ہے۔خیال رہے، ووٹنگ سے صرف دو دن پہلے اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ بی جے پی ای وی ایم کے ذریعے 10 فیصد ووٹ مینج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے ہمیں 15 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اروند کیجریوال کا ووٹ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوا ہے۔ اگر کانگریس نے اپنا ووٹ بینک دوگنا کیا ہے تو ظاہر ہے بی جے پی کو عام آدمی پارٹی پر زبردست سبقت حاصل ہو رہے۔ وہ 1993 سے بھی آگے جا سکتی ہیں، جب اس نے 42.8 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ ویسے سٹّہ بازار کے بر عکس ایگزٹ پول واضح طور پر بتاتے ہیں کہ کانگریس نے عام آدمی پارٹی کو ان سیٹوں پر سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ،جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد نسبتاََ زیادہ تھی۔ظاہر ہے کانگریس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو ان سیٹوں پر کراری شکست کا امکان ہے، جہاں 2020 میں جیت کا فرق بہت کم تھا۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہریانہ اورمہاراشٹر کے بعد بی جے پی نے دہلی میں بھی اپنا مائیکرو مینجمنٹ کا نمونہ پیش کیا ہے۔جبکہ’’ انڈیا‘‘ بلاک کے ساتھی کے طور پر دہلی کا لوک سبھا چناؤ ایک ساتھ لڑنے والی عام آدمی پارٹی اور کانگریس کادہلی اسمبلی انتخابات میںالگ ہو جانے کا خمیازہ تو انھیں خاص طور پر عام آدمی پارٹی کو تو بھگتنا ہی تھا ۔ سیاسی مبصرین بھی مانتے ہیں کہ آج جس نتیجے کا امکان ہے ، وہ تو ہونا ہی تھا۔