عیدالفطر: سماجی خوشیوں کا پیغامبر

تاثیر 30  مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

آج عیدالفطر ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے روزوں، عبادتوں اور قربانیوں کے بعد یہ دن خوشی، مسرت اور شکرگزاری کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ہماری طرف سے آپ سب کو عیدالفطر کی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد! عیدالفطر نہ صرف روحانی تجدید کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ باہمی محبت، اخوت اور بھائی چارے کے رشتوں کو مضبوط کرنے کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ عیدالفطر کا پیغام صرف ذاتی خوشی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں۔ رمضان میں ہم نے صبر، تحمل اور ایثار کی جو تربیت حاصل کی، اب وقت ہے کہ اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔ اپنے پڑوسیوں، دوستوں، رشتہ داروں اور خصوصاً غریبوں اور محتاجوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ زکوٰۃ الفطر اور خیرات کے ذریعے ضرورت مندوں تک عید کی خوشیاں پہنچانا ہماری اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ یہ عمل معاشرتی مساوات کو فروغ دیتا ہے اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرتا ہے۔ عید کا مقصد صرف نئے کپڑے پہننا اور خوشیاں منانا نہیں، بلکہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا بھی ہے جو کسی وجہ سے عید کی خوشیوں سے محروم ہیں۔ہمیں اس موقع پر اپنے فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور معصوم بچوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو شب و روز بدترین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہم براہِ راست ان تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن ہم اپنی دعاؤں میں ضرور ان کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح میانمار اور تھائی لینڈ میں حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد کے لیے بھی دعا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں اور متاثرین کی غیب سے مدد فرمائے۔
بھارت جیسے کثیرالثقافتی ملک میں عیدالفطر ایک منفرد رنگ لیے ہوتی ہے۔ یہاں ہر مذہب اور برادری کے لوگ اس خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ بازاروں میں چہل پہل اور مٹھائیوں کی خریداری، بچوں کی خوشی اور گھروں سے آتی پکوانوں کی خوشبو عید کے سماجی پہلو کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ تاہم، ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں موڑنی چاہئیں کہ ہمارے معاشرے کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور معاشی ناہمواری جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ عید الفطر کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نفرت کے بجائے محبت اور رواداری ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں آگے لے جا سکتا ہے۔عید کا اصل پیغام ان خلیجوں کو پاٹنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ عید کے موقع پر امن و امان کو یقینی بنائیں اور تمام برادریوں کو مساوی سہولیات فراہم کریں۔حال ہی میں بعض شہروں میں سڑکوں اور چھتوں پرنمازِ عید کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی، جو مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف تھا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہی ملک جہاں دیگر مذاہب کے تہوار سڑکوں پر منائے جاتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لیے سختیاں بڑھا دی جاتی ہیں۔ مہاکمبھ کے دوران لاکھوں یاتریوں کے لیے ڈیڑھ دو مہینے تک ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، لیکن مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس بار مسلمانوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے کمبھ یاتریوں کے لیے مساجد، مدرسے اور اپنے گھر کھول دیے اور ان کی مدد کرکے خوشی محسوس کی۔ بدقسمتی سے، جیسے ہی یہ تقریب ختم ہوئی، حکومت نے سڑکوں پر نماز کی ادائیگی کے خلاف سخت اقدامات شروع کر دیے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت باہمی مکالمے اور منصفانہ اقدامات کے ذریعے ان مسائل کا حل نکالتی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام جاتا کہ بھارت میں تمام مذاہب کو برابری کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے۔اگر ایسا ہوتا تو پھر امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آئی آر ایف) کی گزشتہ 25 مارچ کو جاری رپورٹ میں،ملک میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہیں لکھا جاتا کہ 2024 میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف حملوں اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سال عید کے موقع پر، وقف ترمیمی بل 2024ء کے تنازع نے بھی مسلم کمیونٹی کے جذبات کو متاثر کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے اس بل کے خلاف تحریک جاری ہے، اور حکومت کے عید کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے ارادے نے بحث کو تیز کر دیا ہے۔ اس تناظر میں، عید الفطر ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ تمام فریق مکالمے اور افہام و تفہیم کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں۔ سیاسی لیڈران، جیسے چندر بابو نائیڈو نے چند دنوں قبل مسلم کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ اسی طرح، دیگر رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ اس تہوار کے موقع پر اتحاد اور امن کے پیغام کو آگے بڑھائیں۔کیوں کہ عید ہمیں اتحاد، محبت اور رواداری کا درس دیتی ہے۔ اس موقع پر ہمیں اپنے دلوں سے کدورتیں نکال کر سب کو گلے لگانا چاہئے۔ اگر کسی سے نا دانستہ کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معافی طلب کرنا اور دوسروں کو بھی معاف کردینا چاہئے۔اس موقع سے یہ ضروری ہے کہ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کو مدعو کریں، ساتھ بیٹھ کر کھائیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ اپنے بچوں کو عید کے سماجی اور روحانی پہلوؤں سے روشناس کرائیں تاکہ وہ اس تہوار کی حقیقی روح کو سمجھ سکیں۔اللہ کرے کہ یہ عید ہم سب کے لیے، اپنے ملک بھارت کے لئے اور پوری امت مسلمہ کے لیے خوشحالی، امن اور محبت کا پیغام لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آخر میں ایک بار پھر، آپ سب کو عید مبارک!
********