اصل مسائل کو کب تک ٹالا جاتا رہے گا ؟

تاثیر 16  مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار میں اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، سیاست تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ہر ایک پارٹی اپنے اپنے طور پرچناوی حکمت عملی مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ ایک طرف جہاں این ڈی اے میں شامل پارٹیاں، خاص طور پر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا کھیل شروع ہو گیا ہے، وہیں دوسری جانب عظیم اتحاد کی اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل سےخاطر خواہ تعداد میں سیٹیں حاصل کرنے کے لئے کانگریس نے دباؤ کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔مانا جا رہا ہے کہ گزشتہ سال 23 دسمبر سے شروع ہوئی نتیش کمار کی’’ وکاس یاترا‘‘ اور اِدھرہولی سے ٹھیک دو دن پہلے مدھوبنی ضلع کے بسفی اسمبلی حلقہ کے بی جے پی ایم ایل اے ہری بھوشن ٹھاکر بچول کے ذریعہ دیا گیا ’’ سال میںہولی ایک بار اورجمعہ 52 بار ‘ ‘ والا متنازعہ بیان بھی چناوی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ اگر کانگریس کی بات کی جائے تو کل 16 مارچ کو مغربی چمپارن کے بھتہروا آشرم سے شروع، کنھیّا کمار اور دوسرے کانگریس لیڈروں کے ذریعہ ایک ماہ تک چلنے والی ’’ ملازمت دو، نقل مکانی روکو‘‘ یاترا کو بھی اپنی اپنی سیاسی زمین کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سیٹوں کی تقسیم میں دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
  اسی درمیان ایودھیا کی طرز پر بہار میں’’ سیتا مندر ‘‘کا معاملہ گرم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں گجرات میں منعقد ایک تقریب میں کہا تھا کہ ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے بعد اب بہار کے سیتامڑھی میں ایک عظیم الشان سیتا مندر تعمیر کیا جانا چاہئے۔ ان کے اس بیان کے بعد بہار کی سیاست میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ امیت شاہ جس سیتا مندر کی بات کر رہے ہیں  در اصل وہ ’’جانکی جنم بھومی مندر‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جو بہار کے سیتامڑھی ضلع کے پنورا گاؤں میں واقع ہے۔ مانا جاتا ہے کہ سیتا جی کی پیدائش اسی جگہ ہوئی تھی۔ اس مندر کی تزئین و آرائش اور اسے سیاحتی مقام کے طور پر تیار کرنے کا منصوبہ ستمبر 2023 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کی حکومت تھی۔ آر جے ڈی سے نتیش کمار کی علیحدگی کے بعد اب بی جے پی اس معاملے کو نئے سرے سے اٹھا رہی ہے۔ جے ڈی یو نے اس پروجیکٹ کے لیے مزید فنڈز کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ آر جے ڈی نے اسے بی جے پی کی انتخابی چال قرار دیا ہے۔ لالو پرساد بھلے ہی یہ مانتے ہیں کہ بہار میں فرقہ وارانہ سیاست سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اس معاملے کے ذریعے بہار کے مِتھلا نچل میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ جے ڈی یو اور آر جے ڈی کا اس خطے میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں اثر ہے، جب کہ شہری سیٹوں پر بی جے پی کی پوزیشن بہتر ہے۔ حال ہی میں نتیش کمار کی کابینہ کی توسیع میں مِتھلا نچل کے لیڈروں پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ بی جے پی کے کوٹے سے سات وزراء کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے تین کا تعلق مِتھلا نچل سےہے۔ اس کے ساتھ ہی، کل9وزراء میں سے چار صرف دربھنگہ سے ہیں، جسے مِتھلا کی راجدھانی سمجھا جاتا ہے۔ مِتھلا علاقہ بی جے پی کےلئے اہم ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور جے ڈی یو کو یہاں اچھی کامیابی ملی تھی۔ سیتامڑھی لوک سبھا سیٹ جے ڈی یو کے حصے میں گئی تھی، جہاں دیویش چندر ٹھاکر نے آر جے ڈی کے ارجن رائے کو 50,000 سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی تھی۔ اسمبلی انتخابات میں بھی یہاں این ڈی اے کا غلبہ ہے۔ سیتامڑھی ضلع کی چھ اسمبلی سیٹوں میں سے تین بی جے پی اور دو جے ڈی یو کے پاس ہیں، جب کہ صرف ایک سیٹ آر جے ڈی کے پاس ہے۔ پورے بہار میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، این ڈی اے نے 39 میں سے 30 سیٹیں جیتی تھیں، جو بی جے پی کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ بی جے پی نے  مِتھلا نچل کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ نومبر 2023 میں، صدر دروپدی مرمو نے آئین کا میتھلی ورژن جاری کیا تھا۔ اس سے قبل اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے میتھلی کو آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل کیا تھا۔ نریندر مودی حکومت نے مِتھلا نچل کی مکھانہ صنعت کو فروغ دینے کےلئے 2024 کے بجٹ میں مکھانہ بورڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ بی جے پی اس خطے میں زیادہ سیٹیں جیت کر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اسی حکمت عملی کے تحت نتیش کی کابینہ میں مِتھلا نچل کے لیڈروں کو بھی زیادہ نمائندگی دی ہے۔
ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹیاں آر جے ڈی اور کانگریس بھی اس علاقے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔ آر جے ڈی نے متھلا کو الگ ریاست بنانے کی مانگ اٹھائی ہے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سے اس علاقے کی تیزی سے ترقی ہوگی۔ تاہم، بی جے پی اس مانگ کو انتخابی چال کہہ کر ٹال رہی ہے۔قابل ذکر ہے کہ بہار کی سیاست میں مذہب اور ذات پات ہمیشہ ہی سے اہم عوامل رہے ہیں۔ رام مندر کی طرح اب سیتا مندر کے معاملے کو بھی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا نے لگا ہے۔بی جے پی اسے ہندوؤں کے جذبات سے جوڑ رہی ہے، جب کہ اپوزیشن اسے مہنگائی، بے روزگاری اور ترقی کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی چال قرار دے رہی ہے۔ویسے عام طور پر تو یہی دیکھا جائے گا آنے والے انتخابات میں ’’سیتا مندر‘‘ کو انتخابی ایشو بنانا بی جے پی کیلئے فائدہ مند ہوگا۔حالانکہ یہ اصل سوال اپنی جگہ بر قرار ہی رہے گا کہ انتخابی وعدوں کے درمیان عوام کے اصل مسائل کو آخر کب تک ٹالا جاتا رہے گا ؟