تاثیر 23 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
14 فروری ، 2019 کو پیش آئے پُلوامہ حادثہ کے بعدوادی گزشتہ روز ایک بار پھر خون میں ڈوب گئی۔ 22اپریل 2025 کو جموں و کشمیر کا سیاحتی جنت نظیر مقام پہلگام دو درجن سے زائد معصوموں کے قتل کا گواہ بن کر پورے عالم ِانسان کو دہلا دیا۔ بائیساران میڈوز کے قریب گھنے جنگلات سے نکلنے والے دہشت گردوں نے 26 بے گناہ جانوں کو چھین لیا، جن میں دو غیر ملکی سیاح اور ایک نیوی افسر بھی شامل تھے۔ اس حملے نے نہ صرف کشمیر کی وادی کو لرزا دیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی کی یہ آگ معصوم زندگیوں کو نگل رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی عزم کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔حملے کی تفصیلات خون کے آنسو رلانے والی ہیں۔ منگل کی دوپہر، جب سیاح اور مقامی لوگ پہلگام کی دلفریب وادی میں فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، مسلح دہشت گردوں نے اچانک ان پر حملہ کر دیا۔ ایکس پر گردش کرنے والی پوسٹس کے مطابق اسے بھارتی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا حصہ قرار دیتے ہوئے’’ کشمیر ریزسٹنس فرنٹ‘‘ نامی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ تاہم، ذمہ داری کے دعوؤں میں حد درجہ ابہام کی گنجائش ہے۔
چشم دید گواہوں کے مطابق، دہشت گرد سیاحوں کو ان کے مذہب کی شناخت کر کے ہلاک کر رہے تھے۔ اگر یہ درست ہے تو ایک مسلمان کا نام ہلاک شدگان میں کیسے شامل ہے؟ یہ تناقض سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا یہ حملہ ہندو اور مسلمان برادریوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنے کی سازش تھی ؟ ایسی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ نفرت اور تقسیم کا زہر دور تک نہیں پھیلے۔ ویسے اس سانحے کے درمیان ایک ایسی بات بھی سامنے آئی جو انسانیت کی عظمت کو روشن کرتی ہے۔ ایکس پر وائرل اطلاعات کے مطابق، سید حسین شاہ نامی ایک مقامی شخص نے سیاحوں کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پروا نہیں کی۔ انھوں نے سیاحوں کو بچانے کے لئے دہشت گردوں سے ان کی رائفلیں چھیننے کی کوشش کی، لیکن اس بہادری کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔ وہ اپنی بوڑھی ماں اور گھر کے دیگر افراد کے واحد کفیل تھے۔ ان کی ماں کے الفاظ،’’وہ میرے گھر کا واحد کفیل تھا‘‘، ہر دل کو چھو لیتے ہیں۔ شاہ کی یہ قربانی نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے انسانیت کی عظیم مثال ہے۔ ان کی بہادری ثابت کرتی ہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہے۔
کشمیر، جو اپنے حسن اور ثقافت کے لئے مشہور ہے، بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو کشیدہ رکھتا ہے۔ بھارت نے حسبِ معمول اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ علیحدگی پسند تحریکوں کی مدد کرتا ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ الزامات اور جوابی الزامات دونوں ممالک کے مابین عدم اعتماد کی گہری خلیج کو عیاں کرتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلگام کا یہ سانحہ کسی ایک مذہب یا قوم کا زخم نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا درد ہے۔ ایکس پر عالمی صارفین کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر سے لوگ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا ہے، “دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، یہ صرف انسانیت کی دشمن ہے۔‘‘ یہ جذبات دہشت گردی کے خلاف متحدہ آواز کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی سرحد، مذہب، یا قوم کی قید نہیں مانتی۔ ہلاک شدگان میں مختلف پس منظر کے لوگ شامل تھے، جو صرف فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے آئے تھے۔ ان معصوم جانوں کا خون نہ صرف دہشت گردوں کے ہاتھوں پر ہے بلکہ اس نظام کے ہاتھوں پر بھی ہے جو اس تشدد کو روکنے میں ناکام رہا۔ ایکس پر ایک صارف نے درست کہا ہے،’’حقیقی آزادی امن سے حاصل ہوتی ہے، خونریزی سے نہیں۔‘‘
پوری انسانیت کے لئے دردناک اور شرمناک اس سانحے کے بعد شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں تاکہ اصل ذمہ داروں کا تعین ہوسکے۔ساتھ ہی ہلاک شدگان کی مذہبی شناخت سے متعلق دعوؤں کی بھی گہرائی سے چھان بین ہونی چاہئے، کیونکہ یہ سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی بڑی سازش ہو سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کو الزام تراشی کے بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔ دونوں ممالک کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، کو بھی اس تنازعے کے حل میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف حکومتیں بلکہ ایک ایک فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ نفرت کی جگہ امن اور محبت لے سکے،کشمیر ہمیشہ کے لئے جنت نشاں بن سکے!
******