! فلم ’’پھولے‘‘ : سماجی ہم آہنگی کا پیام

تاثیر 19  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بھارت، جو اپنی متنوع ثقافت، مشترکہ وراثت اور سماجی ہم آہنگی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، آج ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ پرتیک گاندھی اور پترلیکھا کی فلم ’’پھولے‘‘، جو سماجی اصلاح پسند جوتی راؤ پھولے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی پھولے کی زندگی پر مبنی ہے، اپنی ریلیز سے پہلے ہی تنازعات کے گھیرے میں آ گئی ہے۔ یہ فلم، جو پہلے 11 اپریل، 2025 کو سینما گھروں میں آنے والی تھی، اب آج سے چار دن بعد یعنی 25 اپریل کو ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ کچھ براہمن تنظیموں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ فلم ذات پات پر مبنی بیانیہ کو فروغ دیتی ہے۔ اس تنازعہ نے نہ صرف فلم کے مواد بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے اور مشترکہ وراثت کے تحفظ کے سوال کو بھی اجاگر کیا ہے۔’’پھولے‘‘ ایک ایسی فلم ہے جو بھارت کی سماجی تاریخ کے دو عظیم کرداروں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ جوتی راؤ اور ساوتری بائی پھولے نے 19ویں صدی میں ذات پات اور جنسی امتیاز کے خلاف لڑائی لڑی اور تعلیم کے ذریعے سماجی مساوات کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1848 میں پونے میں لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول قائم کیا، جو اس وقت کے سماجی اصولوں کے خلاف ایک انقلابی قدم تھا۔ یہ فلم ان کی اس بے مثال جراَت اور ویژن کو دکھانے کا وعدہ کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، فلم کا ٹریلر جاری ہونے کے بعد، کچھ براہمن تنظیموں نے اسے ذات پات کو فروغ دینے اور ان کی برادری کو منفی طور پر پیش کرنے کا الزام لگایا۔ سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) نے بھی فلم کے کچھ ڈائیلاگز اور مناظر کو ہٹانے یا تبدیل کرنے کی ہدایت دی ہے، جس سے فلم کی ریلیز چند دنوں کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔
یہ تنازعہ صرف ایک فلم تک محدود نہیں ہے؛ یہ ہمارے سماج کے گہرے زخموں اور حساسیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ذات پات کا معاملہ بھارت میں ہمیشہ سے ایک نازک موضوع رہا ہےاور اسے سنیما جیسے طاقتور میڈیم کے ذریعے پیش کرنا ہمیشہ چیلنجنگ ہوتا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر، آننت مہادیون،  کا کہنا ہے کہ ہر فلم میں کچھ سنیمائی آزادی لی جاتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تاریخی سچائی کو مسخ کیا جائے۔ پرتیک گاندھی، جو فلم میں جوتی راؤ پھولے کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے بھی براہمن برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ فلم کو کھلے دل سے دیکھیں اور اس کے مکمل سیاق و سباق کو سمجھنے کے بعد ہی اپنی رائے قائم کریں۔ ان کا یہ بیان ایک مثبت قدم ہے، جو گفت و شنید اور افہام و تفہیم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا ملک ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں مختلف مذاہب، ذاتیں، اور ثقافتیں صدیوں سے ایک ساتھ رہتی آئی ہیں۔ ہماری مشترکہ وراثت اسی تنوع میں پنہاں ہے۔ پھولے جیسے سماجی اصلاح پسندوں نے اس تنوع کو ایک طاقت بنانے کی کوشش کی، نہ کہ تقسیم کا سبب۔ آج، جب ہم اس فلم کے تنازعہ پر غور کرتے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ فنون لطیفہ کا مقصد صرف تفریح نہیں، بلکہ سماجی مکالمہ شروع کرنا بھی ہے۔ اگر فلم ’’پھولے‘‘ ذات پات جیسے حساس موضوع کو چھوتی ہے، تو اسے تنقید یا تنازعہ کے بجائے ایک موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔ایک ایسا موقع جو ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔
اس تنازعہ نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہماری سماجی ہم آہنگی اتنی نازک ہے کہ ایک فلم اسے متزلزل کر سکتی ہے؟ کیا ہم اپنی مشترکہ ثقافت اور وراثت کو اس قدر کمزور سمجھتے ہیں کہ ایک سنیمائی پیشکش اسے نقصان پہنچا سکتی ہے؟ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سچائی، چاہے وہ کتنی ہی تکلیف دہ ہو، کو دبانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔جو تی راؤ پھولے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی پھولے  کے دور میں ذات پات اور جنسی امتیاز کے خلاف لڑائی ایک حقیقت تھی اور آج بھی ہمارے سماج میں یہ مسائل مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔ فلم جیسا میڈیم ہمیں اس حقیقت سے روبرو ہونے اور اس پر بات کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔چنانچہ ہمیں چاہئے کہ ہم اس تنازعہ کو ایک پل کے طور پر استعمال کریں، جو مختلف برادریوں کے درمیان فاصلے کم کرے۔ براہمن تنظیموں کے خدشات کو سننا اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے، لیکن ساتھ ہی فلم سازوں کی تخلیقی آزادی اور تاریخی سچائی کو پیش کرنے کے حق کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ سابق ریاستی وزیر چھگن بھوجبل نے فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز سے ملاقات کر کے اس تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، جو ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ اسی طرح، ہمیں بھی مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
یہاں یہ یاد دلانا شایدغیرمناسب نہیں ہے کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران بھارتی سنیما میں کچھ ایسی فلمیں بھی آئی ہیں، جوپروپیگنڈا اور سیاسی ایجنڈوں کو فروغ دینے کے الزامات کی زد میں رہی ہیں۔ ایسی فلموں میں’’دی کشمیر فائلز‘‘ (2022) سرفہرست ہے، جو 1990 کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور مبینہ مظالم کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس پر حقائق کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کر کے کشمیری مسلمانوں کو منفی طور پر دکھاکر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اسی طرح ’’دی کیرالہ اسٹوری‘‘ (2023)، ’’غدر‘‘ اور ’’ٹائیگر‘‘جیسی فلموں پر بھی سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے الزامات عائد کئےجاتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کہیں کوئی قابل ذکر تحریک نہیں چلی، جسے کسی مہذب معاشرے کی دلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔ آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ ’’پھولے‘‘فلم صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ہمارے سماج کی روح کی آئینہ دار ہے۔ یہ ہمیں اپنی مشترکہ وراثت کو سمجھنے، سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے اور ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے، جہاں مساوات اور انصاف سب کے لیے قابل رسائی ہو۔ آئیے، ہم سب مل کر اس فلم کو ایک موقع دیں کہ وہ اپنا پیام عام لوگوں تک پہنچائے اور ایک ایسی شروعات کا ذریعہ بنے، جو ہمیں ہماری مشترکہ ثقافت اور انسانی اقدار کے قریب لے جانے والی ہے۔