پہلگام حملے کے بعد بھارت – پاک کشیدگی

تاثیر 26  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہوئے دہشت گرد حملے نے بھارت۔ پاک تعلقات کو ایک بار پھر شدید تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حملے کے بعد بھارت کی جانب سے سخت اقدامات، خصوصاً سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے اعلان نے پاکستان کو بوکھلاہٹ کا شکار بنادیا ہے۔ ادھر پاکستانی قیادت کے متضاد بیانات اور شہباز شریف کے حالیہ امن کے پیغام نے خطے کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پہلگام حملہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھانے کا باعث بن گیا ہے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو 1960 سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک اہم معاہدہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ سندھو ندی کا پانی پاکستان کی زراعت اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے بھارت کے اس قدم نے پاکستان کے متعلقہ خطے میں پانی کے بحران کا خطرہ بھی بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے اس صورتحال پر متضاد ردعمل دیا ہے۔ ایک طرف پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کاکول ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے امن کی بات کی ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان شفاف تحقیقات کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ، “پہلگام حملہ دوطرفہ الزام تراشی کا ایک اور مظہر ہے، جسے مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔” تاہم، انہوں نے بھارت کے پانی روکنے کے اقدام کو “جارحانہ” قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل کی دھمکی بھی دی ہے۔ دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھو ندی کے کنارے ایک جلسے میں اشتعال انگیز بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا، “سندھو ندی ہماری تھی، ہے اور رہے گی۔ اس میں یا تو پانی بہے گا یا خون۔” یہ بیان نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس سے مذاکرات کے امکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستانی قیادت کے یہ متضاد رویے اندرونی سیاسی دباؤ اور بھارت کے اقدامات کے سامنے بے بسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
واضح ہو کہ سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر، 1960 کو ہوا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے تحت بھارت کو ستلج، بیاس اور راوی ندیوں پر مکمل کنٹرول دیا گیا، جبکہ سندھو، جھیلم اور چناب کا پانی زیادہ تر پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ بھارت کا معاہدہ ختم کرنے کی وجہ سے پاکستان کی زراعت، جو اس کی معیشت کا 20 فیصد حصہ ہے، شدید طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک، جو اس معاہدے کا ضامن ہے، اب تک اس تنازع پر خاموش ہے، جو کہ تشویشناک ہے۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارت کے اس قدم سے نہ صرف بھارت ۔ پاک تعلقات مزید خراب ہوں گے بلکہ خطے میں عدم استحکام کا خطرہ بھی بڑھے گا۔ پاکستان کی معیشت، جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، پانی کے بحران سے مزید دباؤ میں آ سکتی ہے۔ دوسری جانب، بھارت کا یہ فیصلہ اسے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرا سکتا ہے، کیونکہ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات سے دونوں ممالک کے درمیان عسکری تصادم کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ “ہم اپنی خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے”، جو کہ بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اس تنازع کو عالمی سطح پر تشویش کا باعث بناتی ہے۔
پہلگام حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک بار پھر بھارت۔ پاک تعلقات کی نزاکت کو اجاگر کیا ہے۔ ویسے دونوں ممالک کو الزام تراشی کے بجائے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔ عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ اور عالمی بینک کو اس تنازع کے حل کے لیے فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے، جبکہ پاکستان کو اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔خطے میں پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک کو اعتماد سازی کے لئے مثبت پہل کر نے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی پہلگام حملے کی شفاف تحقیقات کی شروعات بھی کی جا سکتی ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ اس میں تیسرے فریق کی شمولیت بھی ضروری ہے، تاکہ توازن بر قرار رہے۔ اگر دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئے تو اس کا نتیجہ نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ پورے عالمِ انسان اور امن عالم کے لئے نہایت ناخوشگوار ہوگا۔