راہ ِجہادمیں تشدد کی گنجائش نہیں

تاثیر 17  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بھارت کی سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے خلاف دائر عرضیوں پر جاری سماعت نے ایک بار پھر ملک کے سماجی، مذہبی، اور قانونی ڈھانچے پر گہری بحث چھیڑ دی ہے۔ عدالت کا منصفانہ رویہ، جیسا کہ 16 اور 17 اپریل 2025 کی سماعتوں میں دیکھا گیا، نہ صرف عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ آئینی قدریں اب بھی بھارت کے جمہوری نظام کی بنیاد ہیں۔ عدالت نے حکومت سے قانون کی کئی اہم شقوں پر جواب طلب کیا اور فی الحال ان پر عمل درآمد روک دیا، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عدلیہ سماجی انصاف اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کر رہی ہے۔تاہم، بہتر فیصلے کی جانب بڑھ رہی اس قانونی جدوجہد کے ساتھ ساتھ، مغربی بنگال کے مرشد آباد سے موصول ہونے والی تشدد اور بدامنی کی خبریں انتہائی افسوسناک ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف انسانیت کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سماجی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے خلاف جاری آئینی و جمہوری جدو جہد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے خلاف مسلم تنظیموں، سیاسی رہنماؤں، اور سماجی کارکنوں کی جانب سے اٹھائی گئی آواز نے واضح کیا ہے کہ یہ قانون نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہے بلکہ آئین کے بنیادی اصولوں(مساوات، آزادی، اور جائیداد کے حقوق)کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے سماعت کے دوران استدلال کیا کہ نئے قانون میں غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل کرنے کی شق اور پانچ سال سے کم عرصے میں اسلام قبول کرنے والوں پر وقف جائیداد کی پابندی بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی جائیداد کو وقف کرنا چاہتا ہے تو حکومت اسے کیسے روک سکتی ہے؟ یہ نکات نہ صرف قانونی بلکہ فلسفیانہ سطح پر بھی اہم ہیں، کیونکہ یہ فرد کی خودمختاری اور مذہبی آزادی کے سوال کو چھوتے ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ سوال کہ’’ کیا حکومت ہندو بندوبستی بورڈز میں مسلم اراکین کو شامل کرنے کے لیے تیار ہے؟‘‘، اس قانون کے یکطرفہ کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ عدالت کا یہ منصفانہ رخ امید کی کرن ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ سماجی تنوع کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم، قانونی جدوجہد کے ساتھ ساتھ، یہ ضروری ہے کہ احتجاج اور مظاہرے آئینی دائرے میں رہ کر کیے جائیں۔ تشدد، مار پیٹ یا آگ زنی جیسے واقعات نہ صرف جائز مطالبات کی صداقت کو کمزور کرتے ہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
مغربی بنگال کے مرشد آباد سے موصول ہونے والی خبریں، جہاں تشدد اور بدامنی کے واقعات رپورٹ ہوئے، انتہائی تشویشناک ہیں۔ اگرچہ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر یا غلط رنگ دے کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جائے، لیکن حقیقت حال سے قطع نظر، جہاد کی راہ میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات واضح طور پر صبر، حکمت اور پرامن طریقوں سے جدوجہد کی تلقین کرتی ہیں۔ قرآن کریم کی آیت: ”تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز اپنے لئے بہتر نہیں جانو اور دراصل وہی تمہارے بہتر ہو“ (سورہ بقرہ، آیت 216)، اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مشکل حالات میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھنا اور عقل و تدبر سے کام لینا ضروری ہے۔ اس آیت کو تشدد یا نفرت کے جواز کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے، اسے صبر، حکمت، اور جمہوری جدوجہد کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
چنانچہ مسلم کمیونٹی کو اپنی جدوجہد کو پرامن، قانونی اور جمہوری خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ تشدد نہ صرف آئینی قدروں کے منافی ہے بلکہ یہ دشمن عناصر کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کریں۔ اس کے برعکس، پرامن احتجاج، قانونی چارہ جوئی اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ تعاون سے نہ صرف مطالبات کی صداقت برقرار رہے گی بلکہ سماجی ہم آہنگی بھی مضبوط ہوگی۔بھارت کا سماجی تانا بانا تاریخی طور پر تنوع اور ہم آہنگی پر مبنی رہا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب، جو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، اور دیگر مذاہب کے پرامن بقائے باہمی کی علامت ہے، بھارت کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ہندو قوم پرستی کے عروج نے اس تہذیبی ورثے کو چیلنج کیا ہے۔ وقف (ترمیمی) قانون 2025 جیسے قوانین، جو مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور سماجی حقوق کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس تنوع کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔اس صورتحال میں، مسلم کمیونٹی کو نہ صرف اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا بلکہ دیگر مذہبی اور سیکولر جماعتوںکے ساتھ تعاون کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ بھارت کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کے بیج بونے والے عناصر کے خلاف متحد ہوں۔اِدھر سپریم کورٹ کے منصفانہ رویے نے یہ واضح کیا ہے کہ آئینی راستوں سے انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے تمام کمیونٹیز کو مل کر اس ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرنا چاہئے۔
بہر کیف صبر، حکمت اور باہمی اتحاد کے ساتھ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے خلاف جاری جدوجہد نہ صرف ایک قانونی جنگ ہے بلکہ یہ بھارت کے سماجی اور تہذیبی ڈھانچے کو بچانے کا جہاد بھی ہے۔ایسے میں سپریم کورٹ کا منصفانہ رویہ ملک کے تمام امن و انصاف پسند عوام کے لئے امید کی کرن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، تمام شہریوں،خاص طور پر مسلم کمیونٹی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی جدوجہد پرامن، آئینی، اور جمہوری رہے۔ قرآن کریم کی آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکل حالات میں صبر، حکمت، اور اللہ پر بھروسہ رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح، بھارت کی گنگا جمنی تہذیب ہمیں سکھاتی ہے کہ تنوع اور ہم آہنگی ہی اس ملک کی اصل طاقت ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر نفرت اور تقسیم کے خلاف متحد ہوں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے پرامن اور قانونی راستوں پر گامزن رہیں۔
***************