تاثیر 4 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے وقف ترمیمی بل، 2025 اور مسلم وقف (منسوخ) بل، 2024 کو منظوری دے دی ہے، جس میں وقف بورڈ میں شفافیت بڑھانے سمیت کئی اہم دفعات شامل ہیں۔ تادم تحریر سوشل میڈیا سے موصول اطلاع کے مطابق اس میں صدر جمہوریہ نے بھی اپنی منظوری دیدی ہے۔تاہم ، اس کی حتمی تصدیق کے لئے سرکاری اعلان یا گزٹ نوٹیفکیشن کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے، اس ترمیمی بل کے قانون کی شکل اختیار کرنے کے بعد مرکزی حکومت اس قانون کے نفاذ کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرے گی، جو وقف املاک کے انتظام و انصرام کے طریقۂ کار کو واضح کریں گے۔ اس میں کچھ دن لگ سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ اس کے اثرات فوری طور پر ملک کی وقف املاک اور مسلم برادری پر نمایاں ہوں گے۔ اتر پردیش میں تو اس کے آثار ابھی سے نظر آنے لگے ہیں۔حالانکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس تر میمی قانون سے ملک میں غریب اور پسماندہ مسلمانوں اور اس کمیونٹی کے بچوں اور خواتین کی حالت کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔
ترمیمی وقف قانون کا مقصد بظاہر وقف املاک کے نظم و نسق کو بہتر بنانا اور شفافیت لانا بتایا جا رہا ہے، لیکن اس کے بعض شقوں نے مسلم رہنماؤں اور تنظیموں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس قانون کے تحت وقف بورڈز کے ڈھانچے میں تبدیلیاں، جائیدادوں کے رجسٹریشن کے لیے نئے ضابطے اور سرکاری حکام کو زیادہ اختیارات دئے گئے ہیں۔ماہرین کے مطابق، اگر اس قانون سے وقف بورڈز کا کنٹرول مسلم برادری کے ہاتھوں سے جزوی طور پر نکل کر سرکاری اداروں کے پاس جا سکتا ہے۔ اس سے وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن ساتھ ہی ان املاک کے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے استعمال پر بھی قدغنیں عائد ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر حکومت کسی وقف جائیداد کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کرنا چاہے تو اسے قانونی جواز مل سکتا ہے، جو روایتی وقف کے تصور کے منافی ہے۔اس قانون کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون وقف املاک سے ہونے والی آمدنی کو غریب اور پسماندہ مسلمانوں تک پہنچانے میں مددگار ہوگا۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین، بچوں اور کمزور طبقات کو فائدہ پہنچے گا، کیونکہ وقف کی آمدنی کا غلط استعمال روکا جائے گا۔ اگر اسے مؤثر طریقے سے نافذ کیا گیا تو غریب مسلمانوں کے لیے تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ تاہم اس قانون کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ بل مسلم برادری کے مذہبی حقوق پر حملہ ہے۔ اپوزیشن لیڈرز جیسے راہل گاندھی، اسدالدین اویسی اور دوسرے تمام اہم مسلم لیڈراسے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی قرار د یتے رہے ہیں، جو مذہبی آزادی اور جائیداد کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ اگر سرکاری مداخلت بڑھ گئی تو وقف کے اصل مقاصد ’ مساجد، مدارس اور خیراتی اداروں کی دیکھ بھال‘متاثر ہو سکتے ہیں، جو مسلم برادری کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
جہاں تک پسماندہ مسلمانوں کے حوالے سے قانون کے ممکنہ فوائد کی بات ہے تو اس سلسلے میں ابھی اتنا ہی سوچا جا سکتا ہے کہ اگر وقف املاک کی آمدنی کا درست حساب کتاب ہو اور اسے سماجی بہبود کے منصوبوں میں لگایا جائے تو غریب مسلم بچوں کی تعلیم، یتیم خانوں کی دیکھ بھال، اور صحت کی سہولیات بہتر ہو سکتی ہیں۔ ساتھ ہی ناجائز قبضوں کے خاتمے سے ان جائیدادوں کی آمدنی بڑھ سکتی ہے، جو براہ راست پسماندہ طبقات تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ تاہم، یہ فائدے اسی صورت میں ممکن ہیں، جب قانون کا نفاذ غیر جانبدارانہ اور مسلم برادری کے مشورے سے ہو، جو موجودہ سیاسی ماحول میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔کل حالات کیسے رہیں گے ، آج ان کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن یہ طے ہے کہ ترمیمی وقف قانون کے نفاذ بعد موروثی وقف املاک کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے، اپنی وقف جائیدادوں کے درست رجسٹریشن اور دستاویزات اپڈیشن ضروری ہوگا۔ چونکہ نئے قانون کے ذریعہ وقف بائی یوزر کے بندو بست کو ختم کر کے سرکاری حکام کو وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو جانچنے اور فیصلہ سنانے کا اختیار مل گیا ہے، اس لئے قانون کے ماہرین سے مشورہ لے کر وقف املاک کے تحفظ کی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری ملی تنظیموں کو متحدہ طور پر جمہوری طریقے سے اپنی باتوں رکھنا اور عدالتی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
یہ صحیح ہے کہ وقف ترمیمی قانون، 2025 نےملک کے مسلمانوں اور دیگر امن و انصاف پسند شہریوںکو طرح طرح کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک طرف انتظامی بہتری اور پسماندہ طبقات کے فوائد کے دعوے ہیں ، تو دوسری طرف مذہبی آزادی اور موروثی وقف جائیدادوں ( مسجدوں، مدرسوں، تعلیمی و فلاحی اداروں،خانقاہوں، امام باڑوں،درگاہوں، قبرستانوں وغیرہ ) پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قانون کا اصل اثر اس کے نفاذ کے طریقۂ کار اور سرکاری نیت پر منحصر ہوگا۔چنانچہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسے صرف سیاسی تنازع نہ سمجھیں بلکہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی، سماجی اور تنظیمی سطح پر ہر طرح سے مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہیں۔ ویسےاس قانون کے خلاف سیاسی و سماجی لوگوں نے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع بھی کر دیا ہے۔یہ وقت مسلم برادری کے اتحاد اور بیداری کا تقاضا کرتا ہے، کیوں کے ان کی صدیوں پرانی وقف روایات کی حفاظت آج کی پہلی ضرورت ہے۔
******