آخر اُن معصوموں کو کیوں مارا گیا !؟

تاثیر 25  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

‘‘وادیٔ کشمیر، جو اپنی سحر انگیز فضاؤں اور فطرت کی رنگینیوں کے لئے مشہور ہے، ایک بار پھر دہشت گردی کی خون آشام لہروں کی زد میں آ گئی ہے۔ پہلگام میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے نے انسانیت کو شرمسار کر دیا اور 28 معصوم جانوں کو ہم سے چھین لیا۔’’ روزنامہ تاثیر‘‘ اس المناک سانحے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور تمام شہدا کی روحوں کے سکون کے لئے دعا گو ہے۔
ہم اس سانحے میں اپنے پیاروں کو کھونے والے تمام پسماندگان اور متعلقین کے ساتھ دلی تعزیت پیش کرتے ہیں، جو اس ناقابلِ تلافی نقصان کے صدمے سے گزر رہے ہیں۔اس حملے نے معصوم سیّاحوں، مقامی باشندوں اور ان کے خوابوں کو نشانہ بنایا ہے۔ شہید ہونے والوں میں انڈین بحریہ کے افسر لیفٹیننٹ ونے نروال، مقامی کشمیری حسین شاہ، کرناٹک کے کاروباری منجوناتھ اور ان کے اہلِ خانہ شامل ہیں۔ خاص طور پر دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ان شہدا میں تین ایسےجوڑوں کے افراد بھی شامل تھے، جن کی نئی نئی شادیاں ہوئی تھیں۔ انہوں نے ازدواجی زندگی کے رنگوں کو ٹھیک سے سمجھا بھی نہیں تھا۔ وہ کشمیر کی حسین وادیوں میں اپنے مستقبل کے خواب سجانے آئے تھے، اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کو سمیٹنے کی خواہش لے کر آئے تھے۔ مگر ظالموں نے ان کی زندگی چھین لی، ان کے گلشن کو بیچ راہ میں تاراج کر دیا۔ یہ تینوں جوڑے، جو اپنی زندگی کے نئے سفر کی شروعات کر رہے تھے، دہشت گردی کی اس بزدلانہ کارروائی نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیے۔
آخر ان معصوموں کو کیوں مارا گیا؟کیا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ زندگی سے محبت کرتے تھے؟ کیا ان کی خواہش کہ وہ فطرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں، ایک جرم تھی؟ اس طرح کے سوالوں کی بازگشت آج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہے، کوئی مذہب نہیں ہے، کوئی نظریہ نہیںہے۔ یہ حملہ صرف ان افراد پر نہیں، بلکہ امن، ہم آہنگی اور انسانی اقدار پر حملہ تھا۔ ’’روزنامہ تاثیر‘‘ اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس جرم کے مرتکبین کو جلد سے جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔لیکن اس سانحے کے بعد جو چیز اور زیادہ تکلیف دہ ہے، وہ ہے اسے مذہبی منافرت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش۔ گودی میڈیا ایک بار پھر اس سانحے کی آڑ میں اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے۔ یہ وہی پرانا ہتھکنڈا ہے، جس میں مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے شہدا کے اہلِ خانہ کے دُکھ کو بانٹنے کی، ان کے کبھی نہ مندمل ہونے والے زخموں پر ہمدردی کی پٹی باندھنے کی۔ لیکن بدقسمتی سے، کچھ میڈیا ہاؤسز اس سانحے کو مذہبی منافرت کے ایجنڈے کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں، جو نہ صرف شرمناک ہے بلکہ انسانی اقدار کے منافی بھی ہے۔
ہم انڈین بحریہ کے چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل دنیش ترپاٹھی کے اس بیان سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ’’بزدلانہ ‘‘ تھا۔ ونے نروال کے دادا کا یہ کہنا کہ ’’اگر اسے گولی نہ لگی ہوتی تو وہ دو چار دہشت گردوں کو مار دیتا‘‘ ہر اس شخص کی آواز ہے جو اس ظلم کے خلاف لڑنا چاہتا ہے۔ ہم اس عزم کی قدر کرتے ہیں کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اس شورش کو ختم کیا جائے۔’’روزنامہ تاثیر ‘‘تمام متاثرین کے اہلِ خانہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ ایشورتمام شہدا کی ارواح کو سکون بخشے، انھیں اپنے قدموں میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت دے۔ ہم زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر دہشت گردی اور مذہبی منافرت کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس وادی کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنائیں۔ہم اپنے قارئین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مشکل گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کے لئے ہمدردی اور حمایت کا اظہار کریں۔ آئیے، ہم سب مل کر اس عزم کو مضبوط کریں کہ نفرت اور تشدد کی کوئی جگہ ہمارے معاشرے میں نہیں ہے!