تاثیر 5 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
وقف(ترمیمی) قانون، 2025کے حوالے سے جاری تنازع نے بھارت کی عدالتی اور سیاسی منظرنامے میں ایک اہم موڑ پیدا کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر حالیہ سماعت نے نہ صرف قانونی باریکیوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور حکومتی اختیار کے مابین ایک پیچیدہ توازن کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی سربراہی میں کل مقدمے کی سماعت ہوئی، لیکن معاملے کی حساسیت اور اس کے وسیع تر اثرات کے مدنظر کو ئی فیصلہ نہیں لیا جا سکا۔اب یہ مقدمہ 15 مئی 2025 کو نئے سی جے آئی جسٹس بی آر گوئی کی بینچ کے سامنے پیش ہوگا۔ واضح ہو کہ یہ معاملہ نہ صرف وقف املاک کے انتظام سے جڑا ہوا ہے، بلکہ یہ آئینی اصولوں، بالخصوص مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کے بنیادی سوالات کو بھی چھوتا ہے۔
وقف(ترمیمی) قانون، 2025 کے خلاف دائر درخواستوں میں بنیادی اعتراضات آئین کے آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 کی مبینہ خلاف ورزیوں پر مبنی ہیں۔ درخواست گزاروں، جن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملّی تنظیموں اوراور مختلف اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ شامل ہیں، کا موقف ہے کہ یہ قانون مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو پامال کرتا ہے۔ آرٹیکل 25 ہر شہری کو اپنے ضمیر کے مطابق مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس سے متعلقہ اداروں کے انتظام کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 26 مذہبی فرقوں کو اپنے اداروں کے انتظام کی آزادی دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتی برادریوں کو اپنی ثقافت، زبان اور تعلیمی اداروں کے تحفظ کا حق فراہم کرتے ہیں۔ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ وقف قانون میں ترامیم، خصوصاً غیر مسلم اراکین کو وقف بورڈز میں شامل کرنے اور وقف املاک کو ڈینوٹیفائی کرنے کی اجازت، ان آئینی تحفظات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ مذہبی امور میں حکومتی مداخلت، خصوصاً اقلیتی اداروں کے انتظام میں، آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تین اہم سوالات اٹھائے ہیں، جو اس تنازع کے مرکز میں ہیں۔ پہلا، کیا وقف املاک کو ڈینوٹیفائی کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، خصوصاً ایسی املاک جو عدالتی طور پر وقف تسلیم کی جا چکی ہیں یا جن کا مقدمہ زیر سماعت ہے؟ دوسرا، کیا تنازعات کی صورت میں کلکٹر کے اختیارات پر پابندی عائد کی جانی چاہیے؟ نئے قانون کے تحت کلکٹر کو وقف املاک کے تنازعات کی جانچ کا اختیار دیا گیا ہے، جس کے دوران ایسی املاک کو وقف کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ تیسرا، کیا وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت جائز ہے؟ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہے، کیونکہ دیگر مذہبی اداروں جیسے کہ ہندو یا سکھ بورڈز میں غیر متعلقہ مذاہب کے اراکین کی شمولیت کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم اقلیتی اداروں کی خودمختاری کو کمزور کرتی ہے۔
وقف املاک کی مقدار اور ان کی معاشی اہمیت بھی اس تنازع کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ بھارت میں وقف بورڈ کے پاس 8.72 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی ہے، جس کی تخمینی مالیت 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے۔مبینہ طور پر یہ املاک فوج اور ریلوے کے بعد ملک کی سب سے بڑی املاک ہیں۔ اس وسیع جائیداد کا انتظام اور اس کے استعمال سے متعلق تنازعات نے نہ صرف قانونی بلکہ سماجی اور سیاسی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ عدالت کی تشویش خصوصاً’’وقف بائی یوزر‘‘سے متعلق ہے، یعنی ایسی املاک جو صدیوں سے مساجد یا دیگر مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں، لیکن ان کے پاس رسمی رجسٹریشن یا دستاویزات نہیں ہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایسی تاریخی املاک کو کیسے تسلیم کیا جائے گا، اور کیا انہیں ڈینوٹیفائی کرنے کی اجازت دینا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا؟
حکومت نے اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف قانون میں ترامیم کا مقصد شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانا ہے۔ سرکاری وکیل تشار مہتا نے استدلال کیا تھا کہ رجسٹریشن کا عمل 1923 کے قانون سے ہی لازمی ہے اور تنازعات کی صورت میں متاثرہ فریق ٹریبونل سے رجوع کر سکتا ہے۔ تاہم، عدالت نے حکومتی موقف پر کچھ سوالات اٹھائے، خصوصاً اعداد و شمار اور رجسٹریشن کے عمل سے متعلق۔ سی جے آئی کھنہ نے زور دیا کہ اس معاملے پر جامع سماعت ضروری ہے تاکہ تمام فریقین کے موقف کو سنا جا سکے۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ محفوظ نہ کرنے کا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عدالت اس معاملے کی حساسیت اور اس کے طویل مدتی اثرات سے بخوبی آگاہ ہے۔بہر حال یہ تنازع نہ صرف قانونی بلکہ سماجی اور سیاسی اعتبار سے بھی اہم ہے۔ ایک طرف اقلیتی برادریوں کے تحفظات ہیں، جو اپنے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں، تو دوسری طرف حکومتی دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم انتظامی اصلاحات کے لیے ناگزیر ہیں۔چنانچہ مانا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ نہ صرف وقف املاک کے انتظام کو متاثر کرے گا بلکہ بھارت میں مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے حوالے سے ایک اہم نظیر قائم کرے گا۔ اس تناظر میں، 15 مئی کی سماعت نہ صرف قانونی دلائل کے لئے اہم ہوگی بلکہ اس سے یہ بھی طے ہوگا کہ بھارت کا عدالتی نظام آئینی اصولوں اور سماجی توازن کے درمیان کس طرح پل باندھتا ہے۔
************