تاثیر 29 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بھارت، جو ایک عظیم جمہوری ملک ہے، اپنے آئین کے ذریعے ہر شہری کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، مگر معاشی عدم مساوات اور اقتصادی ناانصافیاں اس وعدے کو کمزور کر رہی ہیں۔ غربت، بے روزگاری، اور طبقاتی تقسیم تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔ اس تناظر میں، اسلامی معاشی نظام ایک منصفانہ، اخلاقی، اور انسانی بنیادوں پر استوار حل پیش کرتا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اسلامی معیشت کا بنیادی اصول دولت کی منصفانہ تقسیم ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’دولت صرف مالداروں کے درمیان گردش نہ کرے‘‘ (الحشر:7)۔ اس مقصد کے لیے زکوٰۃ، صدقہ، وقف، کفارہ، اور فدیہ جیسے فلاحی ذرائع معاشی توازن کے اہم آلات ہیں۔
بدقسمتی سے، بھارت میں زکوٰۃ کا نظام زیادہ تر انفرادی سطح پر سمٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کا اثر محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک منظم، شفاف اور متحدنظام ِ زکوٰۃ تعلیم، صحت، روزگار، اور خودکفالت جیسے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، زکوٰۃ کے وسائل سے غریب طلبہ کے لیے اسکالرشپس، صحت کے مراکز، اور چھوٹے کاروباروں کے لیے مائیکرو فائنانس اسکیمیں شروع کی جا سکتی ہیں۔ مگر افسوس کہ اس نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے وسائل کا بہترین استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ اور خیرات کے نام پر چندہ مانگنے والوں کی بھرمار ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ افراد یا گروہ اکثر مساجد کی تعمیر، مدرسوں کی کفالت، یا دیگر فلاحی کاموں کے نام پر رسیدیں چھپوا کر گھر گھر اور گلی گلی گھومتے ہیں۔ ان میں سے کئی جعلی فرضی ہوتے ہیں، جو حلیہ بدل کر سیدھے سادے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔اس سے خیرات کا اصل مقصد مجروح ہوتا ہے۔کیونکہ قرآن ہمیںایسے مستحقین کی شناخت کی تلقین کرتا ہے، جو اپنی خودداری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے ہیں۔ ایسے ماحول میں قرآن کا یہ حکم اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مستحقین وہ ہیں جو اپنی خودداری کے باعث مانگتے نہیں ہیں، چنانچہ انھیںپہچاننا، ان کی خاموشی کے پیچھے موجود ضرورت کو محسوس کرنا اور ان کی مدد کرنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔(البقرہ: 273) مگر افسوس کہ آج نہ تو ہم اصل مستحقین کو پہچاننے کی زحمت کرتے ہیں، نہ ان کی خاموش غربت پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے عطیات کے صحیح مصارف کی تحقیق کرتے ہیں۔ غیر شعوری طور پر ہماری توجہ اکثر اصل ضرورت مندوں پر کم اور جعلی چندہ بازوں پر زیادہ رہتی ہے۔
اسلام سود کی سختی سے ممانعت کرتا ہے، جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے اور غریب کو مزید غریب جبکہ امیر کو مزید امیر بناتا ہے۔ اسلامی مائیکرو فائنانس، قرض حسنہ، اور باہمی امدادی سوسائٹیز اس کا بہتر متبادل ہیں۔ مثال کے طور پر، قرض حسنہ اسکیمیں چھوٹے کاروباریوں کو سہارا دے سکتی ہیں، جبکہ باہمی امدادی سوسائٹیز کمیونٹی کی سطح پر معاشی استحکام لا سکتی ہیں۔ یہ نظام نہ صرف معاشی بہتری لاتا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی اور اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دیتا ہے۔
موجودہ حالات میں، بھارتی مسلمانوں کو محض شکوہ کرنے کے بجائے اسلام کے رہنما اصولوں کی روشنی میں ایک متحرک اور خودکفیل معاشی ماڈل تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے لئے با صلاحیت، باشعور اور دینی و ملی جذبے سے سرشار افراد پر مشتمل ملّی و سماجی تنظیمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ زکوٰۃ کے نظام کو منظم کرنے، مستحقین کی درست شناخت، اور جعلی چندہ بازی کی روک تھام کے لئے علمی و عملی بیداری ناگزیر ہے۔ مساجد، دینی اداروں اور کمیونٹی سینٹرز کو زکوٰۃ کے شفاف نظام کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی کا استعمال، جیسے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے زکوٰۃ کی تقسیم اور احتساب، اس نظام کو مزید مؤثر بنا سکتا ہے۔اسلامی معیشت نہ صرف عدل و انصاف کا درس دیتی ہے بلکہ خیرات کو عبادت، امانت اور ذمہ داری کے دائرے میں لاتی ہے۔ اگر ہم اس نظم و ضبط اور احتساب کو اپنائیں، تو نہ صرف اپنے معاشرے کو معاشی طور پر خودکفیل بنا سکتے ہیں بلکہ ایک مثالی سماجی ڈھانچہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں، جو بھارت جیسے متنوع ملک کے لئے ایک نمونہ بن سکتا ہے۔ اس کے بغیراپنی تمامتر کوششوں کے باوجود ہم ہمیشہ کے لئے خیرات کے جذباتی ہجوم میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ نہ امت کبھی خودکفیل بن سکے گی اور نہ ہی اپنا معاشرہ کبھی اپنے پاؤںپر کھڑا ہو سکے گا۔