اسرائیل کی بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی

تاثیر 24 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

غزہ میں جاری جنگ نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست کو بھی ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایک معتبر رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کو حالیہ ہفتوں میں غیر معمولی سفارتی دباؤ کا سامنا ہے، جو اس کے اقدامات کے خلاف عالمی برادری کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل کے لبرل روزنامے ہارٹز نے اس صورتحال کو ’سفارتی سونامی‘ قرار دیا ہے، جو غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور انسانی امداد پر پابندیوں کے نتیجے میں ابھر رہی ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کے لئے ایک تنبیہ ہے کہ اس کی موجودہ پالیسیاں نہ صرف فلسطینیوں کے لئے تباہ کن ہیں بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
اکتوبر 2023 میں حماس کے حملوں کے بعد شروع اس جنگ نے غزہ کو فاقہ کشی اور تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں نے شہریوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جبکہ امداد کی ترسیل پر پابندیوں نے انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اس صورتحال نے عالمی برادری کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنا لہجہ سخت کرے۔ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل کے روایتی اتحادی اب اس کے اقدامات کو ’ناقابل برداشت‘ سمجھ رہے ہیں۔ ان ممالک نے نہ صرف غزہ میں فوجی کارروائیوں کی مذمت کی ہے بلکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کو بھی ہدف بنایا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کی سفارتی تنہائی کا ایک اور مظہر برطانیہ کا اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرنا اور یورپی یونین کی جانب سے 25 سال پرانے ایسوسی ایشن معاہدے پر نظر ثانی کی تجویز ہے۔ یہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل کے روایتی اتحادی اب اس کی پالیسیوں کو غیر پائیدار سمجھ رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر، جو ماضی میں اسرائیل کے حق دفاع کے حامی رہے ہیں، نے بھی غزہ میں معصوم بچوں کی تکالیف کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا ہے۔ یہ تبدیلی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے، خاص طور پر لیبر پارٹی کے اندر سے جنگ بندی کے مطالبات کے بعد۔اِدھراسرائیل کے اندرونی سیاسی منظر نامے نے بھی اس بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو پر الزام ہے کہ وہ اپنی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے دباؤ میں ہیں، جن میں بیزال سموٹریچ جیسے وزرا شامل ہیں، جن کے اشتعال انگیز بیانات نے عالمی سطح پر شدید تنقید کو جنم دیا ہے۔ سموٹریچ کے غزہ کو ’صاف‘ کرنے اور شہریوں کو تیسرے ملک منتقل کرنے کے بیانات کو برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ’انتہا پسندی‘ اور ’مکروہ‘ قرار دیا ہے۔ یہ بیانات نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ اسرائیل کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی تنہائی کا ایک اور پہلو واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے دو ملازمین کے قتل کا واقعہ ہے، جسے اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے عالمی تنقید سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، یہ دعوے ہمدردی کی عارضی لہر کے باوجود اسرائیل کی سفارتی مشکلات کو کم نہیں کر سکے۔ یہودی برادری کے اندر سے بھی تنقید کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے سابق سفیر لارڈ لیوی جیسے نمایاں یہودی رہنماؤں نے غزہ کی صورتحال کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل کی پالیسیاں اس کے اپنے حامیوں میں بھی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔اِدھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموشی بھی اس سارے منظر نامے میں ایک اہم سوال اٹھاتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے غزہ میں فاقہ کشی کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور جنگ ختم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن ان کا کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرنا اسرائیل کے لیے ایک مخمصے کی صورتحال پیدا کرتا ہے۔ امریکی حمایت اسرائیل کے لئے ہمیشہ سے ایک ڈھال رہی ہے، لیکن مغربی اتحادیوں کی بڑھتی ہوئی تنقید اور سفارتی اقدامات اس ڈھال کو کمزور کر رہے ہیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال اور اسرائیل کی سفارتی تنہائی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عالمی برادری اب محض بیانات تک محدود نہیں ہے ۔ ٹارگٹڈ پابندیاں، تجارتی مذاکرات کی معطلی اور سفارتی تنبیہات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ اگر اسرائیل نے موجودہ راستہ جاری رکھا تو وہ نہ صرف عالمی سطح پر مزید الگ تھلگ ہو گا بلکہ خطے میں امن کے امکانات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ اس تناظر میں، عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ نہ صرف تنقید کرے بلکہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی بحالی کےلئےٹھوس اقدامات بھی کرے، تاکہ غزہ کے شہریوں کی تکالیف کو کم کیا جا سکے اور خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو۔
********************