تاثیر 15 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بھارت، جو اپنی ثقافتی رنگارنگی اور تنوع کے لیے عالمی شہرت رکھتا ہے، آج کل سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاسی پولرائزیشن، سماجی خلیج اور معاشی عدم مساوات نے ملکی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ حالیہ برسوں میں ، تین طلاق، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)، آرٹیکل 370 کی منسوخی، وقف ترمیمی قانون 2025، اور اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویوں نے عدم تحفظ کا احساس بڑھایا ہے۔ گئو کشی کے الزامات، ہجومی تشدد،مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ اور مسجدوں اور مزاروںکی بے حرمتی جیسے واقعات نے سماجی تانے بانے کو کمزور کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے نفرت انگیز تقاریر اور پروپیگنڈے کو ہوا دی ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشی طور پر، بھارت نے زراعت، پانی کے تحفظ اور بنیادی ڈھانچے میں ترقی کی ہے، لیکن ورلڈ بینک کے مطابق، 40 فیصد آبادی آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، بے روزگاری منہ پھاڑے کھڑی ہے۔مہنگائی نے اچھے اچھوں کی کمر توڑ دی ہے اور دولت کا 60 فیصد صرف 10 فیصد لوگوں کے پاس سمٹ گیا ہے۔ یہ معاشی تفاوت سماج میں پھیلی بے چینی اور ناراضگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ان مسائل کے حل کے لئے اسلامی تعلیمات رہنما اصول فراہم کرتی ہیں۔ اسلام عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے، سب تمہارے لیے پیدا کیا‘‘ (سورہ بقرہ: 29)۔ یہ آیت وسائل پر سب کے برابر حق کی نشاندہی کرتی ہے۔ زکوٰۃ، خیرات اور اسلامی معاشی نظام غربت کو کم کرنے اور سماج میں اخوت کو فروغ دینے میں مددگار ہیں۔ بھارت جیسے ملک میں، جہاں معاشی عدم مساوات ایک بڑا چیلنج ہے، ان اصولوں پر عمل سے غربت اور تفاوت کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔سماجی ہم آہنگی کے لئے قرآن مجید فرماتا ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ (سورہ الحجرات: 13)۔ یہ آیت تنوع کو اللہ کی نشانی قرار دیتی ہے اور باہمی احترام کی تلقین کرتی ہے۔ بھارت کے کثیر المذاہب معاشرے میں، یہ اصول مذہبی اور سماجی تقسیم کو کم کرنے کے لئے رہنما بن سکتا ہے۔ دینی مدارس اسلامی تعلیمات کو عصری علوم کے ساتھ ملا کر نئی نسل میں اتحاد اور شعور پیدا کر سکتے ہیں۔سیاسی سطح پر، اسلام حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دینے کی ہدایت کرتا ہے۔ سیاسی قائدین کو منصفانہ پالیسیاں بنانی چاہئیں جو تمام برادریوں کے لیے یکساں ہوں۔ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس قوانین اور ان کا مؤثر نفاذ ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔ دانشوروں اور علماء کو چاہیے کہ وہ نفرت اور تعصب کے خلاف آواز اٹھائیں اور اسلام کی اصل تعلیمات، جو امن، بھائی چارے اور عدل پر مبنی ہیں، کو عام کریں۔
عملی اقدامات میں تعلیمی نظام کی جدید کاری شامل ہے، تاکہ طلبہ نہ صرف ڈگریاں حاصل کریں بلکہ شعور، تربیت اور اخلاقی اقدار بھی سیکھیں۔ حکومت کی پالیسیاں اقلیتوں کے تحفظ، معاشی مساوات اور سماجی انصاف کو یقینی بنائیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے مواد کی نگرانی اور اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ معاشی ترقی کے پروگراموں کو غریب طبقات تک پہنچایا جائے تاکہ عدم مساوات کم ہو۔
دھیان رہے، بھارت کا تنوع اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر ہر فرد اپنے دائرے میں محبت، احترام اور انصاف کا سفیر بن جائے، تو یہ ملک نفرت کی دیواروں کو گرا کر اتحاد کی نئی داستان رقم کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی قائدین، علماء، دانشوروں اور عوام کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ مشترکہ عزم اور عملی اقدامات سے ہی بھارت اپنے چیلنجز پر قابو پا کر ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے۔ اسلامی اصول(عدل، اخوت اور حکمت)ہمارے دلوں کو جوڑنے کا پل ہیں۔ آئیے، مل کر ایک ایسا بھارت بنائیں جہاں ہر رنگ، ہر مذہب اور ہر آواز کو عزت ملے، اور امن و خوشحالی کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے۔