تاثیر 19 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ کے ایک متنازع حالیہ بیان نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے بلکہ عدالتی نظام اور سماجی اقدار پر بھی گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وجئےشاہ کو ان کے بیان پر سخت سرزنش کی ہے ساتھ ہی ان کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے تین رکنی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ اس ٹیم میں تین آئی پی ایس افسران شامل ہوں گے، جن میں ایک خاتون افسر بھی ہوگی، اور یہ تمام افسران مدھیہ پردیش کے باہر سے ہوں گے تاکہ تحقیقات کی غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ عدالت نے 28 مئی تک اس ٹیم سے ابتدائی رپورٹ طلب کی ہے۔ وجئے شاہ کے خلاف یہ کارروائی ان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں انہوں نے بھارتی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں نازیبا ریمارکس دیے تھے۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا، جسے ویجے شاہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ تاہم، سپریم کورٹ نے کل ہوئی معاملے کی سنوائی کے بعد نہ صرف ایف آئی آر کو برقرار رکھا ہے بلکہ وجئے شاہ کی گرفتاری پر عارضی پابندی لگاتے ہوئے انہیں تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے عہدے کی ذمہ داری کو سمجھیں۔ عدالت کا یہ موقف واضح کرتا ہے کہ عوامی عہدوں پر فائز افراد کو اپنی زبان اور رویے میں انتہائی احتیاط برتنی چاہیے، کیونکہ ان کے الفاظ معاشرے پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
وجئے شاہ کے اس معاملے نے سیاسی، سماجی اور عدالتی سطح پر کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ایک طرف کانگریس پارٹی نے اس معاملے کو ہاتھوں ہاتھ لے کر بی جے پی پر شاہ کو بچانے کا الزام عائد کیا اور وزیر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کا ایک وفد بھوپال میں گورنر سے ملاقات کر کے احتجاجی مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی کے کچھ وزراء نے وجئےشاہ کی حمایت کی ہے، جس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس صورتحال نے بی جے پی کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں، خاص طور پر جب پارٹی کے کچھ رہنما شاہ کے بیان کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، عدالت کا سخت رویہ اور عوامی سطح پر شدید ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوام اب غیر ذمہ دارانہ بیانات کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
اس معاملے کے متوازی، ہریانہ سے ایک اور سنگین معاملہ سامنے آیا ہے، جو قومی سلامتی سے متعلق ہے۔ یوٹیوبر جیوتی ملہوترا کی جاسوسی کے الزام میں گرفتاری نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے نئے حربوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہسار پولیس کے مطابق، جیوتی ملہوترا پاکستانی انٹیلی جنس آفیسرز کے رابطے میں تھی اور حساس معلومات فراہم کر رہی تھی۔ اس کی پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار سے رابطوں اور متعدد بار پاکستان کے دوروں نے تحقیقات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جیوتی نے واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور اسنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستانی ایجنٹوں سے رابطہ رکھا۔ اس کی مالیاتی سرگرمیاں اس کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ معاملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جدید جنگ اب صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں کی جانب سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بھرتی کرنے کی کوشش ایک خطرناک رجحان ہے، جو قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
وجئے شاہ اور جیوتی ملہوترا کے یہ دونوں واقعات، اگرچہ مختلف نوعیت کے ہیں، لیکن دونوں ذمہ داری اور شفافیت کا ایک مشترکہ سبق بھی دیتے ہیں۔ ایک طرف عوامی عہدوں پر فائز افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کردار کی سنگینی کو سمجھیں اور دوسری طرف شہریوں کو بھی اپنی سرگرمیوں میں قومی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ وجئےشاہ کا معاملہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف ان کی ذاتی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پوری قوم کی عزت پر بھی حرف لا سکتے ہیں۔ اسی طرح، جیوتی ملہوترا کا کیس ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں دشمن ممالک کی چالیں زیادہ پیچیدہ اور نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پولیس کی کارروائی دونوں ہی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ وجئے شاہ کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عمل کی مکمل ذمہ داری لیں اور عدالت کے فیصلے کا احترام کریں۔ جیوتی ملہوترا کے معاملے میں بھی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ اس جاسوسی نیٹ ورک کے دیگر رابطوں کا پتہ لگایا جا سکے۔ یہ دونوں واقعات ہم سب کے لئے ایک سبق ہے کہ ہمیں اپنے الفاظ، اعمال اور ذمہ داریوں کے بارے میں ہر وقت محتاط رہنا چاہئے۔ساتھ ہی یہ واقعات ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک مضبوط عدالتی نظام اور چوکس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔