! شہیدمحمد امتیاززندہ باد

تاثیر 13 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

شہید محمد امتیاز کی قربانی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کے فوجی جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی سرحدوں کی حفاظت کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹتے۔پچھلے دنوں پاکستانی فوج کی بزدلانہ فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعد، شہید امتیاز نے ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لیں، لیکن ان کی شہادت نے پورے ملک میں ایک ایسی لہر دوڑائی ہے جو غم، غصے اور فخر کا امتزاج ہے۔ ان کا جنازہ جب ان کے آبائی گاؤں چھپرا پہنچا تو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں، انقلاب زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعروں نے فضا کو گرما دیا۔ یہ منظر نہ صرف ایک خاندان کے دکھ کا عکاس تھا بلکہ اس قوم کے عزم کی علامت بھی تھا ،جو اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔
محمد امتیاز صرف بی ایس ایف کے ایک بہادر سب انسپکٹر ہی نہیں تھے، بلکہ ایک ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے اپنے خاندان اور گاؤں والوں کے لیے ایک مثال قائم کی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی، جو خود بھی بی ایس ایف میں سب انسپکٹر ہیں، نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی ہمیشہ وطن کی خدمت کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ ان کی آخری بات چیت میں بھی انہوں نے دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بات کی تھی۔ شہید کی بیوی نے بتایا کہ عید سے چند ہفتے قبل وہ گھر آئے تھے اور اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہوگی۔ ان کی بیوی کی یہ اپیل کہ شہید کے نام پر ایک ہسپتال بنایا جائے، نہ صرف ان کی یاد کو زندہ رکھنے کی خواہش ہے بلکہ اس معاشرے کے لئے ایک عظیم خدمت کا خواب بھی ہے۔شہید کے بیٹوں، عماد رضا اور عمران، نے اپنے والد کی شہادت پر فخر کا اظہار کیا، لیکن ساتھ ہی پاکستانی فوج کی ناپاک حرکتوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا اور بھی وطن کے لئے جام شہادت نوش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عمران، جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، نے اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان پر فخر کرتے ہیں اور پاکستان کو ایسی سزا دینے کی اپیل کرتے ہیں کہ کوئی اور بیٹا اپنے باپ سے محروم نہ ہو۔ شہید کی بیٹی بے نظیر خاتون کا عزم کہ وہ اپنے والد کی شہادت کا بدلہ لیں گی، اس بات کی غماز ہے کہ یہ خاندان نہ صرف دکھ میں ڈوبا ہے بلکہ انتقام اور انصاف کے جذبے سے بھی سرشار ہے۔
اِدھر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا شہید کے گھر جا کر 50 لاکھ روپے کی امداد دینا اور خراج عقیدت پیش کرنا ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ اس سے نہ صرف شہید کے خاندان کو مالی مدد ملے گی بلکہ یہ پیغام بھی جائے گا کہ ریاست اپنے شہیدوں کے خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسی طرح، اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو اور روہنی آچاریہ کی جانب سے خراج تحسین اور مالی امداد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ شہید کی قربانی سیاسی تقسیم سے بالاتر ہے۔ یہ ایک قومی دکھ ہے، جس میں پورا بہار اوربھارت شریک ہے۔تاہم، یہ واقعہ ایک بار پھر پاکستانی فوج کی جانب سے سرحدی جارحیت کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزیاں اور بزدلانہ حملے نہ صرف ہمارے فوجیوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خطے میں امن کے امکانات کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ شہید کے خاندان کا مطالبہ کہ پاکستان کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے، ایک ایسی آواز ہے جو ہربھارتی کے دل میں گونجتی ہے۔ حکومت ہند کو نہ صرف سفارتی سطح پر سخت موقف اپنانا چاہئے بلکہ سرحد پر ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے جو مستقبل میں ایسی دہشت گردی کو روک سکے۔
شہید محمد امتیاز کی شہادت ہمیشہ ہمیں یہ یاد دلاتی رہے گی کہ ہماری آزادی اور تحفظ سرحد پر لڑ رہے ان بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کی بدولت ہے۔ ان کا خاندان، جو آج دکھ اور فخر کے ملے جلے جذبات سے گزر رہا ہے، ہر اس بھارتی کی حمایت کا مستحق ہے، جو اپنے شہیدوں کی قدر کرتا ہے۔ شہید کی بیوی کی ہسپتال کی تجویز اور ان کے بچوں کی تعلیم و مستقبل کے لئے سرکاری مدد کی درخواست کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ نہ صرف ان کے خاندان کے لئے انصاف ہوگا بلکہ اس معاشرے کے لئے ایک مثال بھی قائم کرے گا کہ ہم اپنے شہیدوں کے خوابوں کو زندہ رکھتے ہیں۔آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم شہید محمد امتیاز کی قربانی کو محض ایک واقعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک عظیم پیغام کے طور پر لیں۔ یہ پیغام ہے وطن پرستی، قربانی اور اتحاد کا۔ ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نہ صرف ان کے خاندانوں کی مدد کرنی چاہئے بلکہ اس عزم کو مضبوط کرنا چاہئے کہ کوئی بھی دشمن ہماری سرحدوں کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔بلا شبہ سرحد کی نگہبانی جب تک شہید محمد امتیاز جیسے جانباز جوانوں کے ہاتھوں میں ہے، ہم محفوظ ہیں، ہمارا ملک محفوظ ہےاور وہ لوگ بھی محفوظ ہیں، مذہبی منافرت جن کا شیوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ بھی کہہ رہے ہیں،’’ شہید محمد امتیاززندہ باد!‘‘