عدلیہ نا انصافی کی حمایت نہیں کرے گی

تاثیر 21 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

کل  21 مئی کو بھی سپریم کورٹ میں ، وقف ترمیمی ایکٹ 2025 سے متعلق معاملے کی سماعت ہوئی۔مسلسل دوسرے دن کی سماعت میں مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ قانون وقف املاک کے غلط استعمال اور بدانتظامی کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس قانون نے وہ مسائل حل کیے ہیں، جو برطانوی دور اور بعد کےبھارتی حکومتیں حل نہ کر سکیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس قانون کی تیاری میں تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی گئی اور اس کا مقصد صرف وقف کے سیکولر پہلوؤں کو منظم کرنا ہے۔ مہتا نے واضح کیا کہ وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت تنوع کو فروغ دینے اور انتظامی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ہے، جو کہ مذہبی امور میں مداخلت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھاکہ وقف بورڈز صرف انتظامی اور معاشی امور کی نگرانی کرتے ہیں، نہ کہ مذہبی امور کی۔
تاہم، درخواست گزاروں کے وکلاء، جن میں سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل، راجیو دھون، اور اے ایم سنگھوی شامل ہیں، نے اس قانون کو مسلم اقلیت کے حقوق کے خلاف ایک ’’ قبضے کی رینگتی ہوئی کوشش ‘‘ (creeping acquisition)  قرار دیا۔ کپل سبل نے دلیل دی کہ سیکشن 3 سی کے تحت سرکاری افسر کو وقف املاک کی ملکیت کے بارے میں تحقیق کرنے کا اختیار دینا غیر آئینی ہے، کیونکہ یہ سرکاری ایجنٹ کے ذریعے املاک پر قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے بغیر معاوضے کے وقف املاک کو سرکاری کنٹرول میں لیا جا سکتا ہے، جو کہ آئین کے آرٹیکل 25 (مذہبی آزادی) کی خلاف ورزی ہے۔ سبل نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ہندو یا سکھ مذہبی اداروں کے انتظامی بورڈز میں غیر ہندو یا غیر سکھ اراکین کی شمولیت کی کوئی مثال نہیں ہے، تو پھر وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کیوں؟
سماعت کے دوران تشار مہتا نے سیکشن 3 ڈی اور 3 ای پر بھی روشنی ڈالی۔ سیکشن3 ڈی کے تحت، اگر کوئی وقف املاک محفوظ شدہ تاریخی یادگار قرار دی جاتی ہے، تو وہ وقف کی حیثیت کھو دے گی، لیکن اس کے مذہبی استعمال کو متاثر نہیں کیا جائے گا۔ مہتا نے کہا کہ اس شق کا مقصد تاریخی یادگاروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، جو کہ قومی فخر کا باعث ہیں۔ اسی طرح، سیکشن3 ای قبائلی زمینوں کو وقف بنانے پر پابندی عائد کرتا ہے، جو کہ قبائلی کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے۔ مہتا نے دعویٰ کیا کہ ان شقوں سے درخواست گزاروں کے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔مہتا نے یہ بھی کہا کہ وقف اسلامی تصور ہے، لیکن یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے حوالے سے کہا کہ وقف خیرات کا ایک روپ ہے، جیسے ہندو مت میں’’دان ‘‘ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’وقف بائی یوزر‘‘کوئی بنیادی حق نہیں ہے اور اسے قانون کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے 1923 سے لے کر 1995 تک کے وقف قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رجسٹریشن ہمیشہ لازمی رہی ہے اور نئے قانون نے اس عمل کو مزید شفاف بنایا ہے۔
دوسری جانب، درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ یہ قانون وقف املاک کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔ راجیو دھون نے کہا کہ عقائد، رسومات اور ان کو سہارا دینے والی املاک کسی بھی مذہب کا بنیادی ڈھانچہ ہیں اور انہیں چھیننا سیکولرزم کے اصول کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ اے ایم سنگھوی نے نشاندہی کی کہ نئے قانون کے تحت تاریخی یادگاروں سے متعلق شقیں وقف املاک کو عبادت گاہ ایکٹ 1991 کے تحفظ سے محروم کر سکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ، 2025 سے متعلقہ سماعت صرف قانونی بحث تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے سیاسی اور سماجی مضمرات بھی گہرے ہیں۔ وقف املاک مسلم کمیونٹی کے لئے نہ صرف مذہبی، بلکہ سماجی اور معاشی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس قانون کے تحت ان املاک کے انتظام اور تحفظ پر سوالات اٹھ رہے ہیں، جو کہ اقلیتی حقوق کے تحفظ کے بنیادی آئینی اصولوں سے جڑے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر حتمی فیصلہ آنے تک یہ بحث جاری رہے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف وقف املاک کے مستقبل بلکہ بھارت کے سیکولر ڈھانچے پر بھی اثر انداز ہوگا۔
بہر حال یہ طےہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 نہ صرف قانونی، بلکہ سماجی اور سیاسی تناظر میں بھی ایک حساس معاملہ ہے۔ یہ قانون مسلم کمیونٹی کی املاک کے تحفظ اور ان کے مذہبی و سماجی حقوق سے جڑا ہے۔ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا یہ قانون آئینی حدود میں ہے یا اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف وقف املاک کا مستقبل متاثر ہوگا، بلکہ بھارت کے سیکولر کردار اور اقلیتی حقوق کے تحفظ پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ظاہر ہے، یہ بحث بھارت کے متنوع سماجی تانے بانے کے لئے ایک اہم امتحان ثابت ہونے والی ہے۔ویسے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے امن اور صلح پسند لوگوں کا ماننا ہے کہ بھارت کی عدلیہ نا انصافی کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی۔
*********************