! پروفیسر علی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی

تاثیر 28 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

پروفیسر علی خان محمودآباد، جنھیں پیار سے علی میاں کہا جاتا ہے، بھارت کے ان چند دانشوروں میں سے ہیں، جو تاریخ، شناخت اور تکثیریت کے موضوعات پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ اور سیاسی فکر میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے پروفیسر علی خان اشوکا یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کی تحقیق جدید جنوبی ایشیائی تاریخ، مسلم سیاسی فکر اور شناخت کے مسائل پر مرکوز ہے، جو بھارت کے پیچیدہ سماجی و سیاسی منظرنامے کو سمجھنے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی کتاب ’’پوئٹری آف بلانگنگ‘‘ اردو شاعری کو سیاسی اور جذباتی وابستگی کے ذریعے پیش کرتی ہے، جو تقسیم کے بعد بھارت میں مسلم شناخت کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔
پروفیسر علی خان حال ہی میں اچانک اس وقت تنازع کی زد میں آگئے، جب ہریانہ پولیس نے انھیں’ آپریشن سندور‘ سے متعلق ایک فیس بک پوسٹ کے حوالے سے گرفتار کر لیا۔ اس پوسٹ میں انہوں نے آپریشن کی کامیابی کی تعریف کی تھی، خواتین کی شمولیت اور مذہبی تنوع کو سراہا تھا، سرحد پار دہشت گردی کی حمایت پرانھوں نے پاکستان کی تنقید کی تھی اور وطن عزیز بھارت میںہجومی تشدد جیسے سنگین سماجی مسائل کو ایمانداری کے ساتھ اٹھایا تھا۔ اس پوسٹ کے حوالہ سے ، ایک ہریانہ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ اور دوسری ایک دیگر شہری کی شکایت پر ہریانہ میں دو ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں۔مبصرین کے مطابق اس گرفتاری نے نہ صرف پروفیسر علی خان کی ذات پر سوالات اٹھائے ہیں بلکہ آزادیِ رائے اور علمی اداروں کی خودمختاری پر بھی بحث چھیڑ دی ہے۔
دوسری جانب، ایک اور واقعہ ہمارے سامنے ہے ،جو بھارتی نظامِ انصاف میں دوہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے قبائلی امور کے وزیر اور بی جے پی رہنما کنور وجے شاہ نے انھیں دنوں بھارتی فوج کی مسلم افسر کرنل صوفیہ قریشی کو ’دہشت گردوں کی بہن‘ کہہ کر نہ صرف ان کی توہین کی تھی بلکہ ایک سنگین فرقہ وارانہ بیان دیا تھا۔ واضح ہو کہ کرنل صوفیہ نے آپریشن سندور کے دوران بھارتی فوج کی نمائندگی کرتے ہوئے میڈیا کو اپنی کارکردگی سے متعلق ایک حوصلہ افزا بریفنگ دی تھی۔ وجے شاہ کے اس بیان پر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا، جو دفعات 152، 196(1 بی) اور 197(1 سی) کے تحت درج کی گئی ۔انھیں دفعات کے تحت پروفیسر علی خان کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوئی تھیں۔ تاہم، حیرت انگیز طور پر وجے شاہ کو گرفتار نہیں کیا گیا، جبکہ پروفیسر علی خان کو صبح سویرے ان کے گھر سے اٹھایا گیا، اس وقت جب ان کی اہلیہ نو ماہ کی حاملہ تھیں۔
بہر حال کل 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کے دوران پروفیسر علی خان، کی عبوری ضمانت کی توسیع اگلی سماعت جولائی تک کے لئے کر دی ہے۔ساتھ ہی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تحقیقات کو ، ان کے خلاف درج دو ایف آئی آر تک محدود رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت نے ان کی ضمانت کی شرائط میں تبدیلی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرسکتے ہیں، لیکن اس کیس سے متعلق ایف آئی آرپر کوئی تبصرہ یا آن لائن پوسٹ نہیں کریں گے۔ وہیں دوسری طرف جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 14 جولائی کو ریاست کے ڈی جی پی کو وجے شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔ایف ٓئی آر درج ہونے کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لئے وجے شاہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں معافی نامہ دائر کیا گیا۔ مگر عدالت نے 19 جولائی کو وجے شاہ کے معافی نامہ کو مسترد کرتے ہوئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے وجے شاہ کے بیان کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ اس سے پورا ملک شرمندہ ہو اہے۔ لیکن ان کی گرفتاری کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ چنانچہ وجے شاہ اب تک آزاد ہیں۔
قانون کے ماہرین کے مطابق یہ دوہرا معیار نہ صرف انصاف کے نظام پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ اشوکا یونیورسٹی جیسے اداروں کے کردار کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ اشوکا یونیورسیٹی نے پروفیسر علی خان سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے حکام کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا تھا، جو ایک آزاد خیال ادارے کے لیے مایوس کن ہے۔چنانچہ یہ واقعات ایک بڑے سماجی سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔حالانکہ یہ مسلم حقیقت ہے کہ پروفیسر علی خان کی پوسٹ، وطن پرستی اور سماجی اصلاح کی خواہش کی عکاس تھی۔ اس میں کہیں کوئی ایسی بات نہیں تھی، جس کی بنیاد پر انھیں جیل کی سلاخوں تک جانے کی نوبت آتی ۔سب کا یہی کہنا ہے کہ پروفیسر علی خان کی آواز ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے، جو سماجی انصاف، صنفی مساوات اور مذہبی ہم آہنگی کی وکالت کرتی ہے۔ ان کے ساتھ یکجہتی نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، بلکہ ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی خواہش ہے، جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔ چنانچہ ملک کے انصاف پسند عوام کو یقین ہے کہ پروفیسر علی خان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو سکےگی۔ جو چند لوگ آج ان کے خلاف کھڑے ہیں، وہ بھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔