بہار اور مغربی بنگال میں انتخابی سرگرمیاں

تاثیر 3 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار اور مغربی بنگال کے آئندہ اسمبلی انتخابات 2025 اور 2026میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہونے والے ہیں۔بہارکی انتخابی بساط پر جہاں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) بالخصوص بی جےپی اور انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلو سیو الائنس (انڈیا) بالخصوص راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے درمیان چناوی صف بندی شروع ہو چکی ہے، وہیںمغربی بنگال میںاین ڈی اے بالخصوص بی جےپی اور آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اپنی اپنی حکمت عملیوں کے ساتھ میدان میں اترنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ دونوں ریاستوں کا سیاسی درجۂ حرارت اپنے عروج پر ہے، جہاں بی جے پی اپنا پرچم لہرانے کے لیے پرعزم ہے، جبکہ نتیش کمار اور ممتا بنرجی اپنی اپنی سیاسی دھاک برقرار رکھنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف مقامی قیادت کی آزمائش ہیں بلکہ قومی سطح پر سیاسی توازن کو بھی متاثر کریں گے۔
بہار میں نتیش کمار، جنتا دل (یونائیٹڈ) کے سربراہ اور این ڈی اے کے اتحادی، اپنی پوزیشن مضبوط رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے بی جے پی کے اثر و رسوخ اور اتحادیوں، جیسے لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) وغیرہ کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم پر توازن کا چیلنج ہے۔چراغ پاسوان کی قیادت میں ایل جے پی جارحانہ حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ایم پی ارون بھارتی نےچراغ پاسوان کو بہار اسمبلی کی جنرل سیٹ سے الیکشن لڑنے کی تجویز پیش کی ہے، جو ان کی مقبولیت کو پرکھے گی۔چراغ کا ’’بہار فرسٹ، بہاری فرسٹ ‘‘ نعرہ اور مکھانا بورڈ جیسے اقدامات ووٹروں کو متوجہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لیکن نتیش کے طویل اقتدار کے سامنے یہ حکمت عملی کتنی کامیاب ہوگی، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔حالانکہ اپوزیشن میں تیجسوی یادو بہار میں قانون و انتظام اور بدعنوانی جیسے مسائل اٹھا کر ووٹروں کو راغب کر رہے ہیں۔ تیجسوی اورچراغ کی حالیہ ملاقاتوں نے نئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے، حالانکہ ارون بھارتی نے اس ملاقات کو خاندانی رابطہ قرار دیا ہے۔ بی جے پی، نتیش کے ساتھ اتحاد میں، زیادہ سیٹیں چاہتی ہے، لیکن نتیش کی ساکھ کو کمزور کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ سیٹ شیئرنگ پر مذاکرات جاری ہیں، اور فیصلہ این ڈی اے کے سروے پر منحصر ہوگا۔
اُدھرمغربی بنگال میں ممتا بنرجی اور ٹی ایم سی ایک مضبوط قلعہ ہیں، لیکن بی جے پی کی جارحانہ حکمت عملی نے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 18 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن 2021کے اسمبلی انتخابات میں ممتا کی واپسی نے بی جے پی کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ 2024 کے انتخابات میں ٹی ایم سی کی کامیابی نے ممتا کو مضبوط کیا، لیکن مرشد آباد تشدد نے بی جے پی کے ہاتھ میں ایک نیا چناوی ہتھیار تھما دیا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی رپورٹ، جو ٹی ایم سی رہنماؤں اور بنگال پولیس پر الزامات لگاتی ہے، بی جے پی کے لیے گیم چینجرثابت ہو سکتی ہے۔نریندر مودی اور امیت شاہ اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر ممتا پر’’ووٹ بینک کی سیاست‘‘ اور’’ریاستی سرپرستی میں تشدد‘‘کے الزامات لگا رہے ہیں۔ شاہ نے مرشد آباد کو’’ریاستی سرپرستی والا تشدد‘‘ قرار دیا اور ہندو آبادی کے تحفظ میں ناکامی کا الزام لگایا۔ آپریشن سیندور کو قومی سلامتی اور غیر قانونی تارکین وطن سے جوڑا جا رہا ہے، جو ہندو ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش ہے۔ مودی نے ٹی ایم سی کو ’’ظالم حکومت‘‘ قرار دیا ہے، جو تشدد اور بدعنوانی سے بھری ہے۔ دوسری جانب ممتا، اپنی جارحانہ حکمت عملی کے لیے مشہور، بی جے پی پر مذہبی پولرائزیشن کا الزام لگا رہی ہیں۔ ان کی حکمت عملی مقامی شناخت اور سیکولر ایجنڈے پر مبنی ہے، لیکن بی جے پی کا ’’ہندوتو‘‘ اور’’ قومی سلامتی‘‘ کا بیانیہ ان کے ووٹ بینک کو چیلنج کر رہا ہے۔ مرشد آباد جیسے واقعات بی جے پی کو ہندو ووٹروں کو متحد کرنے کا موقع دیتے ہیں، لیکن ممتا اپنی گراؤنڈ لیول تنظیم کے ذریعہ بی جے پی کی چناوی ترکش کے آخری تیر کامقابلہ ڈٹ کر کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔
بی جے پی کی چناوی حکمت عملی ترقی، قومی سلامتی اور ہندو شناخت کو ایجنڈا بنانا ہے۔ بہار میں وہ نتیش اورچراغ کی طاقت کو استعمال کرنا چاہتی ہے، جبکہ مغربی بنگال میں’’ ہندوتو‘‘ اور’’قومی سلامتی‘‘ کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ نتیش کمار اتحادیوں کے ساتھ توازن رکھ رہے ہیں، جبکہ ممتا بی جے پی کے بیانیے کو سیاسی چال قرار دے کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ انتخابات بہار اور مغربی بنگال کی سمت کے ساتھ قومی سیاست کو بھی متاثر کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی دونوں مورچوں پر فتح کا پرچم لہرا ئے گی، یا نتیش اور ممتا اپنی اپنی ریاستوں پر اپنی گرفت کو برقرار رکھیں گے؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا، لیکن یہ طے ہے کہ اس بار کی چناوی جنگ بھارت کی جمہوری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گی۔