تاثیر 19 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 جون، 2025 سے جاری جنگ نے مغربی ایشیاکے امن و امان کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں اور ایران کی جوابی کارروائیوں نے خطے میں تناؤ کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان سمیت کئی حلقوں سے اسلامی ممالک کو اسرائیل کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی جا رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کی حمایت میں مسلم ممالک کیوں یکجا نہیں ہو پا رہے؟ یہ ایک پیچیدہ سیاسی، جغرافیائی اور فرقہ وارانہ حقیقت ہے، جو مذہبی نعروں سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔
1974 میں لاہور میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی) اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی اتحاد کا عظیم خواب پیش کیا تھا۔ اس وقت ایران میں اسلامی انقلاب نہیں آیا تھا، اور نہ ہی عرب ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ لیکن آج، نصف صدی گزرنے کے بعد، مسلم دنیا گہرے اختلافات کا شکار ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سنی وشیعہ تنازع اور علاقائی بالادستی کی کشمکش نے اتحاد کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر، شیعہ اکثریتی ملک آذربائیجان اسرائیل کا حلیف ہے، جبکہ ایران سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ مصر نے 1979 میں، اردن نے 1994 میں اور 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے تھے۔ ترکی، جس نے 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، اپنی پالیسیوں میں تضادات کا شکار ہے۔ صدر اردوغان فلسطین کی حمایت میں بیانات دیتے ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور معاشی روابط برقرار رکھتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار مسلم ممالک کے اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکی اثر و رسوخ بھی مسلم ممالک کے درمیان دوری کا ایک اہم سبب ہے۔ خلیجی ممالک، جو امریکہ کے اسٹریٹجک شراکت دار ہیں، ایران کے بڑھتے اثر سے خوفزدہ ہیں۔ ان ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی اور ’ایکسٹرا ٹیریٹوریل رائٹس‘ نے انہیں امریکی پالیسیوں کا پابند بنا دیا ہے۔ اردن سے گزرنے والے اسرائیلی ڈرونز کو روکنا ان کے بس میں نہیں، کیونکہ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے۔ دوسری جانب، ایران خطے میں تنہائی کا شکار ہے۔ شام میں اس کی حمایت یافتہ حکومت کے کمزور ہونے کے بعدایران اور بھی الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔اس کے علاوہاس حالیہ تنازع نے مسلم ممالک کے درمیان معاشی اور جغرافیائی مفادات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ خلیجی ممالک، جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، استحکام کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ ایران کی انقلابی پالیسیوں سے خائف ہیں۔ سعودی عرب، جو خود ایران سے براہِ راست تصادم کی پوزیشن میں نہیں، چین کی ثالثی سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن مکمل اعتماد ابھی دور ہے۔ قطر جیسے ممالک، جو ایران کے ساتھ محدود تعاون رکھتے ہیں، امریکی دباؤ کے باعث غیر جانبداری اختیار کرتے ہیں۔
اِدھرپاکستان کی جانب سے اسلامی اتحاد کی اپیل جذباتی طور پر پرکشش ہے، لیکن عملی طور پر ناقابلِ عمل ہے۔ پاکستان خود ماضی میں نہ صرف امریکی کیمپ کا حصہ رہا ہےبلکہ افغانستان میں امریکی مہم میں شریک تھا۔ آج ایران اور مغرب کے درمیان کشمکش میں پاکستان کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل ہے۔ 18 جون، 2025 کو پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات اسی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے، جہاں ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور پاکستان کے ممکنہ کردار پر بات ہوئی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران یہ جنگ ہار گیا تو اسرائیل کا اثر و رسوخ بڑھے گا، جبکہ روس اور چین کی خطے میں گرفت کمزور ہو گی۔
او آئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں موجود ہیں، لیکن ان کا کردار علامتی ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان فرقہ وارانہ، سیاسی اور معاشی اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ ایران کی حمایت میں اتحاد ایک دور کا خواب لگتا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ، جو کبھی مسلم دنیا کا مشترکہ ایجنڈا ہوا کرتا تھا، اب صرف فلسطینیوں اور اسرائیل تک محدود ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں، ایران کی حمایت میں مسلم ممالک کا متحد ہونا ، اپنے مفادات اور مغربی دباؤ کے سامنے فی الحال آسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ ویسے نا مساعد حالات میں بھی کبھی کبھی حالات بہتر ہو جاتے ہیں،اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
*****************