اسرائیل کا ایران پر حملہ اور مسلم اتحاد

تاثیر 15 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں ایک بار پھر خون آلود ہو چکی ہیں۔ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جن کا خفیہ نام اس نے ’’ آپریشن رائزنگ لائن‘‘ رکھا ہے ۔ تہران، اصفہان کے شہر نطنز میں جوہری تنصیبات، اور دیگر فوجی اڈوں پر دھماکوں کی اطلاعات نے خطے کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ حملے، جو مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے کیے گئے، نہ صرف ایران بلکہ فلسطینی مزاحمت اور مسلم امہ کے اتحاد کے لئے ایک سنگین دھچکا ہیں۔ اس تناظر میں، بعض عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ سفارتی دوستی اور ایران کے خلاف فضائی حدود کی بندش، امت کے ضمیر پر ایک گہرا زخم ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کوئی نئی بات نہیں۔ اپریل 2024 میں ایران کے 200 بیلسٹک میزائلوں کے حملے، جو حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے حسن نصراللہ کی ہلاکتوں کا جواب تھے، نے کشیدگی کو عروج پر پہنچایا تھا۔ اسرائیل نے اس کا بدلہ 26 اکتوبر 2024 کو ایران کی فوجی تنصیبات پر حملوں سے لیا، جسے محدود لیکن اسٹریٹجک قرار دیا گیا۔ اب جون 2025 کے حملے، جن میں شہر نطنز کی جوہری تنصیب اور تہران کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اسرائیل کی جارحیت کو ایک نئی سطح پر لے آئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو روکنے کے لئے ناگزیر تھے، لیکن یہ واضح ہے کہ اس کا اصل ہدف فلسطینی مزاحمت کے سب سے بڑے حامی، ایران کو کمزور کرنا ہے۔
ایران، تمام تر تنقید کے باوجود، فلسطینی کاز کا واحد مسلم حامی ہے، جو نہ صرف زبانی جمع خرچ بلکہ عملی طور پر حماس، اسلامی جہاداور حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب سے لے کر آج تک، ایران نے فلسطین کے لئے اپنے قومی مفادات کو پس پشت رکھا ہے۔ اس کی حمایت کی بدولت غزہ میں مزاحمت زندہ ہے اور اسرائیل کو ہر روز نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم دنیا، خاص طور پر ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے عرب ممالک، اس مزاحمت کو تنہا چھوڑ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور دیگر ممالک کی فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کے لئے کھلی ہیں، جبکہ ایران کے لئے بند۔ یہ دوہرا معیار بلا شبہ فلسطینی خون کی توہین ہے۔
جب اسرائیلی طیارے عرب فضاؤں سے گزر کر ایران پر بمباری کرتے ہیں، تو یہ صرف ایران کے خلاف نہیں، بلکہ فلسطینی مزاحمت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ سعودی عرب، جو خود کو مسلم امہ کا لیڈر کہتا ہے، نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی طرف قدم بڑھائے، لیکن غزہ کی تباہی نے اسے عوامی دباؤ کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا۔ تاہم، اس کی خاموشی اور دیگر عرب ممالک کی بے حسی فلسطینیوں کے لیے ایک واضح پیغام ہےکہ وہ اکیلے ہیں۔ او آئی سی جیسے ادارے رسمی بیانات تو جاری کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے مکمل طور پر عاری ہیں۔
یہ حملے مسلم دنیا کے لئے ایک عظیم امتحان ہیں۔ ایران کی جوابی کارروائی، جس میں بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کیا گیا، نے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے، لیکن اس کے نقصانات محدود رہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا ہے کہ ’’دشمن کو کاری ضرب لگائی جائے گی‘‘، لیکن عرب ممالک کی بے وفائی نے ایران کو تنہا کر دیا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا’’محور مزاحمت‘‘ کمزور ہوا، لیکن اس نے فلسطینیوں کی حمایت نہیں چھوڑی۔مسلم امہ کو اب اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ فلسطین صرف ایک سیاسی ایشو نہیں، بلکہ ایمانی اور اخلاقی امتحان ہے۔ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور ایران کے ساتھ مکالمے کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اگر نظریاتی اختلافات ہیں، تو ان کا حل اسلامی اخوت کے اصولوں پر ممکن ہے، نہ کہ اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کر کے۔ عوام کو اپنی حکومتوں سے سوال کرنا ہوگا کہ کیوں ان کی فضائیں فلسطین کے دشمن کے لئے کھلی ہیں اور دوست کے لیے بند؟
یہ وقت بیداری کا ہے۔ فلسطینی مزاحمت، جو عالمی سطح پر منظم ہو رہی ہے، کو متحدہ حمایت کی ضرورت ہے۔ ایران کی تنہائی ختم کرنا اور فلسطینی کاز کو تقویت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی فضائیں دشمن کے لیے کھول دیں، تو کل ہماری زمینیں بھی محفوظ نہ رہیں گی۔ یہ جنگ صرف اسلحے سے نہیں، بلکہ ضمیر، اتحاد اور اصولی موقف سے جیتی جائے گی۔