طیارہ حادثہ: ایک تباہ کن سانحہ

تاثیر 14 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

گزشتہ جمعرات کو احمدآباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز AI-171 کے بوئنگ 787-8 طیارے کے حادثے نے نہ صرف بھارت بلکہ پوری انسانی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ سانحہ، جس میں اب تک 266 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے، نہ صرف ایک المناک واقعہ ہے بلکہ اس نے ایوی ایشن انڈسٹری، خاص طور پر ایئر انڈیا اور بوئنگ کے معیارِ حفاظت پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ ایوی ایشن ماہرین کے مطابق، اس المناک حادثے کی ممکنہ وجوہات میں دونوں انجنوں کی ناکامی شامل ہو سکتی ہے۔ پرندوں کا انجنوں سے ٹکرانا بھی ایک اہم وجہ ہو سکتا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ طیارہ بلندی حاصل کرنے میں ناکام رہا اور ٹیک آف کے 30 سیکنڈکے بعد ہی وہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ بلیک باکس اور ملبے کے تجزیے سے حتمی وجوہات سامنے آئیں گی، لیکن فی الحال انجن فیل ہونے اور برڈ اسٹرائیک کے قیاسات غالب ہیں۔
مذکورہ پرواز 12 جون، 2025 کو دوپہر 1:38 بجے ٹیک آف کے چند سیکنڈ بعد میگھانی نگر کے رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 242 میں مسافروں سے 241 افراد ہلاک ہوگئے۔ بدقسمتی سے، اس حادثے میں عید الاضحیٰ منانے کے لئے گجرات آنے والے کئی خاندان بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ متاثرین میں سید عنایت علی کا آٹھ رکنی خاندان بھی شامل تھا، جو عیدالاضحی منانے کے لیے احمد آباد آیا تھا اور لندن واپسی کے سفر میں جاں بحق ہوگیا۔ حادثے میں 53 برطانوی، 7 پرتگالی اور ایک کینیڈین شہری شامل تھے۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی بھی اس حادثے کی زد میں آ کر ہلاک ہوگئے۔ طیارہ ڈاکٹروں کے ایک ہاسٹل پر گرا، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ صرف ایک مسافر، 38 سالہ رمیش، معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس سانحے کی خبر بے تحاشہ وائرل ہوئی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے لیے گہری تعزیت کے اظہارکا سلسلہ جاری ہے۔ اس سانحے کی شدت اسی وقت واضح ہو گئی تھی، جب ہسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کے منظر لوگوں کے سامنے تھے،جہاں جھلسے ہوئے جسموں کی شناخت تک مشکل ہو رہی تھی۔وزیراعظم نریندر مودی نے فوری طور پر حادثے کی جگہ کا دورہ کیا اور متاثرہ علاقے کے ہاسٹل اور سول ہسپتال کا معائنہ کیا، جہاں زخمیوں کا علاج جاری ہے۔ ان کے ہمراہ سول ایوی ایشن کے وزیر رام موہن نائیڈو، گجرات کے وزیراعلیٰ بھوپیندر پٹیل اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔ وزیراعظم نے ریسکیو آپریشنز اور حالات کی تفصیلی جانکاری حاصل کی، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت اس سانحے کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ایئر انڈیا نے متاثرین کے اہل خانہ کی مدد کے لیے احمدآباد، ممبئی، دہلی اور گیٹوک ایئرپورٹ پر ہیلپ ڈیسک قائم کی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات کافی ہیں ؟
حادثے کی شدت کو بیان کرتے ہوئے عینی شاہدین نے بتایا کہ طیارہ آگ کا گو لا بن کر گرا، جس سے چاروں طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ سڑکوں پر لاشیں بکھری ہوئی تھیں، جن میں سے کئی جھلس کر ناقابل شناخت ہو گئی تھیں۔ کڈنی ریسرچ اینڈ ایجوکیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پرنجل مودی نے بتایا کہ زخمیوں کی حالت انتہائی نازک ہےاور یہ شناخت کرنا مشکل ہے کہ وہ مسافر تھے یا مقامی رہائشی۔ ہسپتال کے باہر لواحقین اپنے پیاروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے، لیکن قسمت نے بہت سے خاندانوں کے خواب چھین لیے۔ مثال کے طور پر، احمدآباد کی کاروباری خاتون ترپتی سونی کے بھائی سوپنل سونی، ان کی اہلیہ یوگا اور بھابی الپا اس پرواز میں سوار تھے، جو اپنے بھائی سے ملنے لندن جا رہے تھے۔
اس سانحے نے ایئر انڈیا اور بوئنگ 787-8 کے حفاظتی معیارات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، مرکزی حکومت بوئنگ ڈریم لائنر 787-8 کی پروازوں پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔ اس سے قبل 2013 میں بھی اس ماڈل کی لیتھیم آئن بیٹری میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد اسے تین ماہ کے لئے گراؤنڈ کیا گیا تھا۔ اگر اس حادثے کی وجہ انجن فیل ہونے یا دیگر تکنیکی خرابی نکلتی ہے، تو اس ماڈل پر طویل مدت کے لئے پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ سول ایوی ایشن کے سابق جوائنٹ سیکریٹری سنت کول نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) کئی بار ایئر انڈیا کو سیکیورٹی چیک اور دیگر خامیوں کے بارے میں خبردار کر چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایئر انڈیا کے مینٹیننس پروٹوکولز میں سنگین خامیاں ہو سکتی ہیں۔
یہ سانحہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ اس نے ایوی ایشن سیفٹی، ایئرلائن مینجمنٹ اور حکومتی پالیسیوں پر بھی گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا ایئر انڈیا اپنے طیاروں کی مناسب دیکھ بھال کر رہی ہے؟ کیا بوئنگ کے ڈریم لائنر ماڈلز پر مکمل اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ کیا ڈی جی سی اے کے حفاظتی پروٹوکولز کافی ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ متاثرین کے اہل خانہ کو انصاف اور معاوضہ فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔حکومت اور ایئر انڈیا کو چاہئے کہ وہ اس سانحے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرائیں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات نافذ کریں۔ بوئنگ کو بھی اپنے ڈیزائن اور مینٹیننس کے عمل کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ مسافروں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کی مالی اور جذباتی مدد کی جائے اور زخمیوں کے علاج کو ترجیح دی جائے۔ یہ سانحہ ایک دردناک یاد دہانی ہے کہ ایوی ایشن سیفٹی میں کسی بھی قسم کی لاپروائی ناقابل قبول ہے۔