ہیٹ ویو سے خود بچئے، دوسروں کو بھی بچائیے

تاثیر 12 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

ملک بھر میں ہیٹ ویو کا آغاز ہو چکا ہے جو اگلے ایک ہفتے تک شدت کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔ اس دوران شمالی، مغربی اور وسطی بھارت کے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، جہاں درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس سے بھی تجاوز کر رہا ہے۔بہار، جھارکھنڈ اور اتر پردیش کے متعدد اضلاع میں گرمی کا قہر اپنے شباب پر ہے ۔محکمہ موسمیات کی تازہ رپورٹ کے مطابق بہار کے بکسر، آرا، بھاگلپور، گیا، بہار شریف اور نوادہ میں درجۂ حرارت مسلسل 45 سے 46 ڈگری کے درمیان رہ رہا ہے۔ کلپٹنہ میں 44.8 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا، جبکہ روہتاس، جہان آباداور اورنگ آباد جیسے اضلاع میں گرمی کی شدت نے عوام کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔جھارکھنڈ میں ڈالٹن گنج کا درجہ حرارت 46.2 ڈگری تک جا پہنچا ہے، جو پورے ریاست میں سب سے زیادہ ہے۔ دھنباد، بوکارو، اور ہزاری باغ میں بھی درجہ حرارت 44 سے 45 ڈگری کے درمیان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر ریاستی حکومت نے اسکولوں میں تعطیل اور دن کے وقت کام کرنے والے مزدوروں کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اُدھر اتر پردیش میں پریاگ راج، وارانسی، سلطان پور، امیٹھی اور فتح پور میں درجہ حرارت 46 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لکھنؤ، کانپور، اور بلیا میں بھی گرمی کا زور ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ خاص طور پر مشرقی اترپردیش کے اضلاع میں ہیٹ ویو کے باعث اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ایسے میں احتیاط، بیداری اور درست طرز زندگی ہی واحد راستہ ہے جو ہمیں اس قدرتی آفت کے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔شدید تپش سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لئےسب سے بنیادی قدم جسم کو پانی کی کمی سے بچانا ہے۔ دن بھر مناسب مقدار میں پانی پینا اس موسم کی پہلی ضرورت بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ اگر پیاس نہ بھی لگے، تب بھی پانی پیتے رہنا چاہیے۔ کیفین، چائے اور کولڈ ڈرنکس جیسے مشروبات وقتی راحت ضرور دیتے ہیں، لیکن جسم میں پانی کی سطح مزید کم کر سکتے ہیں۔ ان کی جگہ سادہ پانی، لسّی، ستو، ناریل پانی یا تربوز اور کھیرا جیسے پھلوں کا رس بہتر انتخاب ہیں۔ بچوں، بزرگوں اور بیمار افراد کی ہائیڈریشن پر خاص دھیان دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
دھوپ سے بچاؤ ہیٹ ویو سے نمٹنے کا دوسرا اہم پہلو ہے۔ صبح 11 بجے سے شام 4 بجے تک سورج کی روشنی سب سے تیز اور خطرناک ہوتی ہے۔ اس دوران باہر نکلنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ اگر مجبوری میں باہر جانا پڑے تو سر پر سفید کپڑا، ٹوپی یا چھتری ضرور لیں، دھوپ کے چشمے پہنیں اور سن اسکرین کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی کوشش کریں کہ چھاؤں میں رہیں اور جسم کو ڈھانپ کر رکھیں۔لباس بھی موسم کے مطابق ہو تو ہیٹ ویو کے اثرات کم کیے جا سکتے ہیں۔ ہلکے رنگ، سوتی اور ڈھیلے کپڑے نہ صرف آرام دہ ہوتے ہیں بلکہ جسم کا درجہ حرارت بھی نارمل رکھتے ہیں۔ تنگ، سیاہ یا نائلون کے کپڑے گرمی جذب کر کے جسم کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔ گھر کے اندر بھی پردے اور کھڑکیاں دن کے اوقات میں بند رکھ کر کمرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔ ایئر کنڈیشنر یا پنکھے کے علاوہ گیلا تولیہ یا اسپرے کا استعمال کر کے گھریلو سطح پر بھی کچھ راحت حاصل کی جا سکتی ہے۔
خوراک کے معاملے میں ہلکی، تازہ اور پانی والی غذا جیسے تربوز، خربوزہ، کھیرا، ٹماٹر اور دہی وغیرہ بہتر رہتے ہیں۔ بھاری، چکنی اور مصالحہ دار اشیاء جسم پر اضافی بوجھ ڈالتی ہیں اور ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں جیسے ورزش یا محنت والے کاموں کو صبح یا شام کے وقت منتقل کرنا عقل مندی ہوگی۔ دھوپ میں زیادہ حرکت یا دوڑ دھوپ نہ صرف تھکن بڑھاتی ہے بلکہ جسمانی پانی کی سطح میں بھی کمی کرتی ہے۔ہیٹ ویو کے دوران جسم میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر کسی کو چکر، تھکن، متلی، پسینے کی زیادتی یا بے ہوشی جیسی علامات محسوس ہوں تو اسے فوری طور پر ٹھنڈی جگہ لے جا کر طبی امداد فراہم کرنی چاہیے۔ یہ علامات ہیٹ اسٹروک کی ہو سکتی ہیں، جو زندگی کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ گاڑیوں میں بچوں، بزرگوں یا جانوروں کو بند کر کے چھوڑ دینا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کھڑی گاڑی کا درجہ حرارت چند منٹوں میں ناقابل برداشت حد تک پہنچ سکتا ہے۔
آنکھوں کی حفاظت بھی اکثر نظرانداز کی جاتی ہے، حالانکہ یہ بھی گرمی کے اثرات کا شکار ہوتی ہیں۔ دھوپ میں چشمہ پہنیں اور دن میں ایک دو مرتبہ آنکھوں کو ٹھنڈے پانی سے دھونا مفید رہتا ہے۔درحقیقت، ہیٹ ویو صرف ایک موسمی اضطراب نہیں بلکہ عوامی صحت کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے نپٹنے کے لیے حکومت، سماج اور ہر فرد کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ آگاہی، احتیاط اور آپسی مدد سے ہی ہم اس خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ یہ وقت لاپروائی کا نہیں، ہوشیاری کا ہے۔ خود بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کا ہے۔
************************