تاثیر 21 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے حالیہ تنازع نے بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت اور دیانتداری پر ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے انتخابات میں’’میچ فکسنگ‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے پولنگ اسٹیشنزسے شام پانچ بجے کے بعد کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈیجیٹل ووٹر لسٹوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ گاندھی کا دعویٰ ہے کہ ای سی آئی کا مطلوبہ مٹیریل فراہم کرنے سے انکار اور 45 دنوں کے بعد ویڈیو فوٹیج اور ویب کاسٹنگ ڈیٹا ضائع کرنے کی ہدایت ، در اصل شواہد مٹانے کی دانستہ کوشش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جس سے جواب مانگا جا رہا ہے، وہی شواہد مٹا رہا ہے‘‘، جو اپوزیشن کی بڑھتی بدگمانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ’’فکسڈ انتخابات‘‘ جمہوریت کے لئے زہر ہیں۔اس سے عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
ای سی آئی نے اپنے دفاع میں تین بنیادی دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلا، سی سی ٹی وی فوٹیج کی عام اشاعت سے ووٹروں کی رازداری کی خلاف ورزی ہوگی، جس سے انہیں دھمکیوں، امتیازی سلوک یا جبر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ فوٹیج سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ کس نے ووٹ دیا یا نہیں، جس سے شہریوں کے لئے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ دوسرا، ای سی آئی نے عوامی نمائندگی ایکٹ اور سپریم کورٹ کی ہدایات کا حوالہ دیا ہے، جو عدالت کے حکم کے بغیر فوٹیج شیئر کرنے سے منع کرتی ہیں۔ تیسرا، فوٹیج صرف اندرونی نگرانی کےلئےہے اور 45 دنوں کے بعد، اگر قانونی چیلنج نہ ہو، تو اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ دلائل گرچہ قانونی اور عملی ہیں، لیکن شفافیت کے بارے میں عوامی اور سیاسی خدشات کو دور کرنے میں صد فیصد ناکام ہیں۔
یہ صورتحال ای سی آئی اور اپوزیشن کے درمیان گہرے اعتماد کے بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ ای سی آئی کا فوٹیج یا ووٹر لسٹ کی فراہمی سے انکار، چاہے قانونی طور پر درست ہو، غیر شفافیت کے تاثر کو تقویت دیتا ہے۔ راہل گاندھی کا’’میچ فکسنگ‘‘ سے متعلق بیانیہ عوامی شکوک کی عکاسی کرتا ہے اور یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ کیاانتخابی عمل واقعی غیرجانبدار ہے ؟ 45 دنوں کے بعد فوٹیج ضائع کرنے کی ہدایت کو جوابدہی محدود کرنے کی کوشش سمجھا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب انتخابات متنازع یا سخت مقابلے کے ہوں۔ گزشتہ دسمبر میں انتخابی قواعد میں ترامیم، جن کی وجہ سے فوٹیج اور امیدواروں کی ریکارڈنگ تک عوامی رسائی محدود ہوئی ہے، نے بھی شکوک کو ہوا دی ہے۔ یہ ترامیم مبینہ طور پر ڈیٹا کے غلط استعمال کو روکنے کےلئے تھیں، لیکن ان سے شفافیت پر سوالات بھی کھڑے ہوں گے، پتہ نہیں اس جانب کیوں نہیں توجہ دی گئی۔
تاہم، ای سی آئی کے رازداری اور قانونی تعمیل کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ فوٹیج کی اشاعت ووٹ کی رازداری کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، جو جمہوری ووٹنگ کا بنیادی اصول ہے۔ سیاسی یا غیر سماجی عناصر کے ذریعے اس کے غلط استعمال کا امکان موجود ہے۔ بے پناہ الیکٹرانک ڈیٹا کے ذخیرہ اور انتظام کے لاجسٹک چیلنجز بھی نمایاں ہیں۔ ای سی آئی کا عدالت کے حکم پر فوٹیج شیئر کرنے کا پروٹوکول قانونی پابندیوں اور شفافیت کے درمیان توازن کی ایک محتاط کوشش ہے۔ لیکن اس کا جواب اعتماد کے بحران کو حل نہیں کرتا۔راہل گاندھی کے مطالبات کو یکسر مسترد کر کے، ای سی آئی دفاعی نظر آتا ہے۔ محدود، گمنام ڈیٹا رسائی یا انتخابی عمل کے آزاد آڈٹ جیسے متبادل اقدامات اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔
بہر حال یہ تنازع محض فوٹیج یا ووٹر لسٹوں تک محدود نہیں؛ یہ بھارت کی جمہوریت کی روح سے جڑا ہے۔ انتخابی بدعنوانی کے الزامات، چاہے وہ ثابت ہوں یا نہ ہوں، اداروں پر عوامی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔ ای سی آئی کو انتخابات کے عمل میں شفافیت کو ایک جمہوری ضرورت سمجھنا چاہیے۔راہل گاندھی کا بیانیہ ایک ایسے جمہوری نظام میں شفافیت کے جائز مطالبے کی عکاسی کرتا ہے ،جہاں اعتماد سب سے اہم ہے۔ رازداری، قانونی نگہداری اور انتخابی عمل میں شفافیت کے درمیان ہم آہنگی اور توازن بھارت کے انتخابات کی حرمت کے لئے ناگزیر ہے۔