تاثیر 4 جولائی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات ، 2025 جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں، ریاست کا سیاسی منظر نامہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ عظیم اتحاد ،جو راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد ہے، اقتدار مخالف ووٹوں کے بٹوارے سے بچنے کی بھر پورکوشش کر رہا ہے، تاہم وہ نہ تو پشوپتی کمار پارَس اور نہ ہی اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کو واضح طور پر ہری جھنڈی دکھا پا ہا ہے۔ یہ تذبذب عظیم اتحاد کی حکمت عملی اور سیاسی مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے، جو اسے ایک پیچیدہ مخمصے میں کا شکار بنائے ہوا ہے۔
عظیم اتحاد کا بنیادی مقصد بہار میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ اس کے لئے آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو سیکولر اور اقتدار مخالف ووٹوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، پشوپتی کمار پارَس اور اویسی جیسے ممکنہ اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات میں حد درجہ تاخیر ہو رہی ہے۔اس تاخیر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اتحادکے داخلی تانے بانے اور اعتماد کے مسائل اسے فیصلہ کن قدم اٹھانے سے روک رہے ہیں۔عظیم اتحاد کے لئے یہ ایک نازک مسئلہ یہ ہے کہ نئے اتحادیوں کو شامل کرنا ایک طرف ووٹوں کے بٹوارے کو روک سکتا ہے ، تو دوسری طرف اس سے موجودہ اتحادیوں کے ووٹ بینک کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
پشوپتی کمار پارَس، جو لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ ہیں، نے لوک سبھا انتخابات سے قبل این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور عظیم اتحاد کے ساتھ ممکنہ اتحاد کے لئے لالو اور تیجسوی سے متعدد ملاقاتیںکی تھیں۔ تاہم، انہیں اب تک صرف زبانی یقین دہانیاں ملی ہیں۔ عظیم اتحاد کی میٹنگوں میں ان کی شمولیت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ آر جے ڈی کا عدم اعتماد ہے، جو پارَس کے ماضی کے این ڈی اے سے تعلقات اور ان کے بھتیجے چراغ پاسوان کے ساتھ جاری تنازعات سے جڑا ہوا ہے۔ پارَس کا سیاسی سفر عدم استحکام کا شکار رہا ہے، کیونکہ وہ این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے درمیان ڈولتے رہے ہیں، جس نے ان کی’’ وشوسنییتا‘‘ پر سوالات اٹھائے ہیں۔
اسی طرح، اسد الدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم نے مہاگٹھ بندھن کے ساتھ اتحاد کے لئے رسمی طور پر رابطہ کیا ہے، جیسا کہ اس کے بہار صدر اختر الایمان کے لالو پرساد کو لکھے گئے خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ اویسی صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی سیکولر ووٹوں کے بٹوارے کو روکنا چاہتی ہے، جو این ڈی اے کے حق میں جا سکتا ہے۔ تاہم، عظیم اتحاد، خاص طور پر آر جے ڈی، اویسی کے ساتھ اتحاد کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آر جے ڈی اور کانگریس نے ماضی میں اے آئی ایم آئی ایم کو بی جے پی کی ’’بی ٹیم ‘‘قرار دیا تھا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ سیکولر ووٹوں کو تقسیم کر کے این ڈی اے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے پانچ سیٹیں جیتی تھیں، لیکن اس کے چار ایم ایل ایز بعد میں آر جے ڈی میں شامل ہو گئے، جو اے آئی ایم آئی ایم کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی حکمت عملی تھی۔
مہاگٹھ بندھن کی یہ ہچکچاہٹ اس کے بنیادی ووٹ بینک،خاص طور پر مسلم اوریادو اتحاد،کے تحفظ سے جڑی ہوئی ہے۔ اویسی صاحب کی پارٹی بہار کے سیمانچل علاقے میں مسلم ووٹروں کے درمیان کافی اثر و رسوخ رکھتی ہے، جو آر جے ڈی کے روایتی ووٹ بینک کا حصہ ہے۔ اگر اویسی صاحب کو اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے آر جے ڈی کے ووٹ بینک میں کمی آ سکتی ہے، جبکہ انہیں نظر انداز کرنے سے ووٹوں کا بٹوارا ہو سکتا ہے، جو این ڈی اے کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اسی طرح، پارَس کو شامل کرنے سے پاسوان برادری کے ووٹوں کو راغب کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی سیاسی عدم استحکام کی تاریخ عظیم اتحاد کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔مکیش ساہنی کی مثال سے مہا عظیم اتحاد کی حکمت عملی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ساہنی نے لوک سبھا انتخابات میں تیجسوی کے ساتھ مضبوط اتحاد بنایا اور ان کی پارٹی کو عظیم اتحاد میں اہم مقام بھی حاصل ہوا۔ اس کے برعکس، پارَس اور اویسی کے ساتھ تذبذب سے ظاہر ہوتا ہے کہ عظیم اتحاد اپنے بنیادی ووٹ بینک کو خطرے میں ڈالے بغیر نئے اتحادیوں کو شامل کرنے کے بارے میں حد درجہ محتاط ہے۔ یہ سیاسی شطرنج کا کھیل ہے، جہاں ہر فیصلہ ووٹوں کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔
بہر حال ابھی عظیم اتحاد کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ سیکولر ووٹوں کو یکجا کرتے ہوئے اپنے بنیادی ووٹ بینک کو برقرار رکھے۔ پارَس اور اویسی کو شامل کرنے سے این ڈی اے کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد بن سکتا ہے، لیکن اس سے داخلی تنازعات اور ووٹ بینک کے کٹاؤ کا خطرہ بھی ہے۔ آر جے ڈی اور کانگریس کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عظیم اتحاد کی انتخابی سیاست کے اونٹ کو کس کروٹ بٹھاتے ہیں،کیونکہ یہ فیصلہ نہ صرف عظیم اتحاد کی انتخابی حکمت عملی بلکہ بہار کے سیاسی مستقبل کو متاثر کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے۔چنانچہ عظیم اتحاد تذبذب کا شکار ہے۔ اسے معلوم ہے کہ انتخابی سیاست کی بساط پر جانے یا انجانے کوئی غلط چال چل جانے کاخمیازہ دور تک بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
*************