تاثیر 6 جولائی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ڈاکٹر محمد گوہر
بہار اسبلی انتخابات ، 2025 عنقریب متوقع ہیں۔ اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے 24 جون، 2025 کو ریاست میں ووٹر لسٹ کی خصوصی شدید نظر ثانی (ایس آئی آر) چلانے کی ہدایت نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ایس آئی آر کا مقصد ریاست کے تمام ووٹر لسٹ کو اپڈیٹ، شفاف اور درست بنانا ہے۔
ای سی آئی کے اس فیصلے کے تحت 2003 کی ووٹر لسٹ کو بنیادی دستاویز مان کر تمام ووٹرز کی شناخت، شہریت، عمر اور رہائش کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ جن افراد کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہیں، انہیں پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، یا 1987 سے پہلے کی سرکاری دستاویزات پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ بوتھ لیول افسران (بی ایل اوز) اور بوتھ لیول ایجنٹس(بی ایل ایز) گھر گھر جا کر تصدیق کے کام کو انجام تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن پچھلے ہفتے ریاست میں یہ عمل جیسے ہی شروع ہوا تھا سیاسی، سماجی اور قانونی تنازعات کی زد میں آگیا تھا۔ بہار کے دیہی علاقوں میں غریب اور پسماندہ طبقات کے درمیان اس سے شدید ناراضگی ہے۔اپوزیشن جماعتیں اسے جمہوریت کے خلاف ایک سازش قرار دے رہی ہیں۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔تبھی سےاس کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
ووٹر لسٹ کی نظر ثانی مہم، انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے شروع کی گئی ہے، لیکن اس کی پیچیدگی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ تقریباً 2.93 کروڑ ووٹرز، جن کے نام 2003 کی فہرست میں نہیں ہیں، کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے مخصوص دستاویزات جمع کرنے کی پریشانی ہے۔ بہار کے دیہی علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ ناخواندہ یا کم خواندہ ہیں، اور ان کے پاس مطلوبہ دستاویزات، جیسے کہ برتھ سرٹیفکیٹ یا مطلوبہ پرانی سرکاری دستاویزات، موجود نہیں ہیں۔ عام طور پر استعمال ہونے والے شناختی ذرائع جیسے آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ، یا منریگا کارڈ کو اس عمل میں قابل قبول نہیں مانا گیا ہے۔ غریب طبقات کے لوگوں کے لئے یہی سب سے بڑی پریشانی کا سبب ہے۔ کئی لوگوں کو سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں، جہاںسے طرح طرح کی شکایات سننے کو مل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، بوتھ لیول افسران اور ایجنٹس کی تربیت کی کمی کی وجہ سے یہ عمل غیر منظم اور مبہم سا ہو گیا ہے۔ کئی ووٹرز، جنھوں نے فارم جمع کر دیے ہیں، انہیں یہ معلوم ہے ان کے کاغذات الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق اپلوڈ بھی ہوئے ہیں یا نہیں۔
اپوزیشن جماعتیں بھی اس مہم کو لیکر چراغ پا ہیں۔راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو نے اسے غریبوں کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے 9 جولائی، 2025 کو ریاست گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی نے اسے چپکے سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی ) نافذ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ان کی شکایت ہے کہ اس سے اقلیتی اور کمزور طبقات کے آئینی حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ این ڈی اے کی چند اتحادی جماعتوں نے بھی اس مہم کی تیزی اور تیاری کی کمی پر دبی زبان میں اعتراضات کئے ہیں اٹھائے ہیں۔
اس مہم کے خلاف قانونی چیلنج بھی سامنے آیا ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے 3 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی، جس میں اس الیکشن کمیشن کے اس قدم کو غیر آئینی اور جمہوری اصولوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ یہ مہم آئین کی دفعات 14، 19، 21، 325، اور 326 کے ساتھ ساتھ Representation of People Act 1950 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس میں تین اہم نکات اٹھائے گئے: پہلا، 2003 کی ووٹر لسٹ کو بنیادی دستاویز بنانا غیر منطقی ہے، کیونکہ ووٹ کا حق شہریت سے منسلک ہے، نہ کہ کسی مخصوص سال کی فہرست سے۔ دوسرا، غریب، مہاجر، اقلیتی، اور خواتین ووٹرز کو دستاویزات حاصل کرنے میں شدید مشکلات ہیں، جس سے لاکھوں افراد ووٹر لسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں۔ تیسرا، یہ مہم شہریوں کے بنیادی حق رائے دہی کو محدود کرتی ہے، جو بھارت کا آئین ہر بالغ شہری کو دیتا ہے۔انتخابات کے حوالے سے بہار کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں بوگس ووٹنگ اور ووٹر لسٹوں کی خامیوں کے مسائل رہے ہیں۔چنانچہ اس میں سدھار اور شفافیت ضروری ہے۔ لیکن اس سدھار اور شفافیت کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ غریب اور کمزور طبقات کو دستاویزی پیچیدگیوں میں الجھا کر، انھیں ان کے حق رائے دہی سے ہی محروم کر دیا جائے۔ یہ مہم سیاسی طور پر بھی حساس ہے۔ 2019 کے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے تنازعات کے بعد، ایسی کسی بھی مہم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ قدم مخصوص طبقات کے ووٹ کو متاثر کرنے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے۔ اگر یہ مہم اپنی موجودہ شکل میں جاری رہی، تو لاکھوں ووٹرز کے نام ووٹر لسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں۔ظاہر ہےاس سے انتخابات کے نتائج اور جمہوری عمل دونوں پر منفی اثر پڑے گا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت قبول کر لی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کا امکان ہے۔ عدالت سے کئی ممکنہ فیصلے متوقع ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ عدالت اس مہم کو غیر آئینی قرار دے کر مکمل طور پر منسوخ کر دے، جس سے و ہ ووٹر لسٹ برقرار رہے گی، جس کی بنیاد پر تقریباََ ایک سال قبل لوک سبھا انتخابات ہوئے تھے۔۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ عدالت الیکشن کمیشن کو ہدایت دے کہ وہ ضوابط کو نرم کرے، جیسے کہ آدھار یا راشن کارڈ کو قابل قبول دستاویزات میں شامل کرنا یا دستاویزات جمع کرانے کی مدت بڑھانا۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ عدالت اس مہم کو درست قرار دے، لیکن اس کے امکانات کم ہیں، کیونکہ آئین ہر بالغ شہری کو رائے دہی کا بنیادی حق دیتا ہے، اور کوئی انتظامی عمل اسے غیر ضروری طور پر محدود نہیں کر سکتا ۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عدالت یا تو مہم کو منسوخ کرے گی یا اسے زیادہ جامع بنانے کی ہدایت دے گی۔
فی الحال اس مہم کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اسے جاری رکھنا چاہتا ہے، تو اس میں کئی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ غریب اور دیہی ووٹرز کے لئے مفت دستاویزات کے کیمپ لگائے جائیں، جہاں برتھ سرٹیفکیٹس اور رہائش کے ثبوت فوری طور پر جاری کئے جائیں۔ مقامی زبانوں میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگوں کو پروسس کی تفصیلات سمجھ آئیں۔ بوتھ لیول افسران کو مناسب تربیت دی جائے تاکہ وہ اس عمل کو شفاف طریقے سے انجام دے سکیں۔ اگر یہ اقدامات نہیں کئے گئے، تو یہ مہم نہ صرف ناکام ہو سکتی ہے بلکہ جمہوری عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لاکھوں ووٹرز کے نام خارج ہونے سے سیاسی عدم استحکام اور سماجی تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
یہ مہم ایک اہم موقع ہو سکتی تھی کہ بہار میں ایک شفاف اور درست ووٹر لسٹ تیار کرنے کا، لیکن اس کے موجودہ ڈھانچے نے اسے پیچیدہ اورمتنازع بنا دیا ہے۔ یہ مہم نہ صرف تکنیکی اور انتظامی چیلنجز کا شکار ہے بلکہ جمہوری اصولوں اور آئینی حقوق کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں، اور سول سوسائٹی کو مل کر ایک متوازن اور منصفانہ حل تلاش کرنا ہوگا، تاکہ ہر ایک اہل شہری کا حق رائے دہی محفوظ رہے۔خدا نخواستہ، اگر یہ مہم اپنی موجودہ شکل میں جاری رہی، تو یہ بہار کے انتخابات اور ملک کی جمہوری ساکھ کے لئےبہتر نہیں ہوگا۔مجموعی طور سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف اس مہم کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ یہ بھی طے کرے گا کہ ملک کے جمہور پسند عوام کے مزاج اور مفاد کے خلاف یہاں کا کوئی بھی قانون پائیدار نہیں ہو سکتا ہے۔
*************
مضمون نگار روزنامہ’’ تاثیر‘‘کے ایڈیٹر ہیں۔‘‘