تاثیر 12 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست میں سیاسی گہماگہمی بڑھ گئی ہے۔6 اور 11ہ نومبر کو ووٹنگ اور 14 نومبر کو نتائج کے اعلان کے درمیان سیاسی جماعتیں امیدواروں کے انتخاب، ووٹروں کی نبض اور زمینی توازن کے تانے بانے کو درست کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر اس بار کا انتخاب محض اتحادوں، نشستوں یا ذات پات کے توازن کا نہیں بلکہ ایک نئے سماجی اور سیاسی زاویے کا ہے، اوروہ ہے’’نیا ایم وائی فارمولہ‘‘، جس میں’’ ایم‘‘ سے مراد ہے ’’مہیلا‘‘ (خاتون) اور ’’وائی ‘‘سے مراد ’’یوا‘‘ (نوجوان) ہے۔
اس بار بہار کے انتخابی نقشے پر خواتین اور نوجوان مرکزی کردار میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے خواتین کی تعلیم، خود انحصاری اور مالی شمولیت کے جو پروگرام دو دہائی قبل شروع کیے تھے، آج ان کے اثرات ووٹ بینک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ سائیکل اسکیم، یونیفارم گرانٹ اور وظیفہ جیسی اسکیموں نے بہار کی لڑکیوں کو نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ بااختیار ووٹر بنا دیا ہے۔ اب وہی لڑکیاں ماں، بہن یا بیٹی کے طور پر معاشی اور سماجی لحاظ سے مضبوط ووٹ دینے والا طبقہ بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس انتخاب میں خواتین کے ووٹ کا تناسب مردوں سے نمایاں طور پر زیادہ ہوگا۔
دوسری طرف، روزگار اور سرکاری نوکری کے وعدوں نے نوجوانوں کو سیاست کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ تیجسوی یادو نے ایک بار پھر ہر گھر کو سرکاری نوکری دینے کے وعدے کے ساتھ نوجوان طبقے میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے انتخابات میں بےروزگاری ہی وہ نکتہ تھی، جس نے آر جے ڈی کے گراف کو آخری ہفتوں میں اوپر پہنچایا تھا۔ اب بھی وہی فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف نتیش کمار خواتین کے ذریعے اپنی ترقیاتی سیاست کو مضبوط کر رہے ہیں، تو دوسری طرف تیجسوی نوجوانوں کے روزگار کے خواب کو بیچ رہے ہیں۔ یہ نیا’’ایم وائی‘‘ مقابلہ پرانے’’مسلم ،یادو‘‘فارمولا پر غالب آتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تاہم، بہار کی سیاست میں ذات پات کے اثرات سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ این ڈی اے اور عظیم اتحاد دونوں، ذاتوں کے توازن کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ این ڈی اے کے اندر لوک جن شکتی پارٹی، جیتن رام مانجھی اور اوپندر کشواہا جیسے رہنماؤں کے درمیان سیٹ شیئرنگ کا معاملہ شاید پوری طرح سے حل نہیں ہو سکا ہے، جبکہ عظیم اتحاد میں بھی کانگریس، سی پی آئی، سی پی آئی (ایم) اور ویکاس شیل انسان پارٹی اپنی اپنی حصے داری بڑھانے میں مصروف ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس انتخاب میں صرف اتحادوں کے درمیان نہیں بلکہ قیادت کے تاثر کے درمیان بھی مقابلہ ہے۔ ایک طرف برسوں کی حکمرانی کے بعد نتیش کمار کی صحت اور مقبولیت پر بحث ہو رہی ہے، تو دوسری طرف تیجسوی یادو کی قیادت کا نیا امتحان سامنے ہے۔ تیجسوی اگرچہ عوام میں مقبول ہیں، مگر اب بھی وہ اس درجہ تک نہیں پہنچے ہیں،جہاں وہ صرف اپنے نام پر انتخاب جیت سکیں۔ بی جے پی بہار میں اس بارپی ایم نریندر مودی کے چہرے پر انتخاب لڑ رہی ہے، کیونکہ ریاست میں اس کے پاس کوئی مضبوط مقامی قیادت موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ این ڈی اے کے لئے مودی کا کرشمہ سب سے بڑا سہارا ہے۔ایک اور پہلو ،جس نے اس انتخاب کو منفرد بنا دیا ہے، وہ ہے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) یعنی ووٹر فہرست کی نظر ثانی کا تنازعہ۔ اس معاملے نے سپریم کورٹ تک رسائی حاصل کر لی ہے، اور تقریباً 69 لاکھ ناموں کے حذف ہونے کے بعد انتخابی شفافیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ عدالت نےاس میں براہِ راست مداخلت نہیں کی ہے، تاہم یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے لئے ایک بڑے امتحان میں بدل چکا ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر ہے کہ فہرستوں کی درستگی میں خامیاں رہ گئی ہیں، جو حق رائے دہی پر اعتماد کے لحاظ سے بہتر نہیں ہے۔اس انتخاب میں الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری اور ساکھ کا امتحان بھی کم نہیں ہوگا۔اسی دوران، راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی مشترکہ ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ نے عوامی توجہ ضرور حاصل کی ہے، مگر اس کا اثر زمینی ووٹنگ پیٹرن پر محدود رہنے کا امکان ہے۔ یاترا نے پارٹی کارکنوں کو متحرک کیا، لیکن اسے ووٹ میں تبدیل کرنا آسان نہیں۔
اِدھرانتخابی منظرنامے پر اگر مجموعی نظر ڈالیں تو یہ انتخاب تین بڑی سمتوں میں تقسیم ہے، ایک طرف خواتین اور نوجوانوں کی سیاست، دوسری طرف ذات پات کا بدلتا توازن، اور تیسری طرف قیادت کے اعتماد کا سوال۔ بہار کے ووٹرز اب پہلے کی طرح صرف جذباتی نعروں سے متاثر نہیں ہوتے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کا مستقبل، ان کی معیشت اور ان کی شناخت کس کے ساتھ محفوظ ہے۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2025 کے بہار اسمبلی انتخابات محض اقتدار کی تبدیلی کا معرکہ نہیں بلکہ ایک نئی سیاسی سوچ کی آزمائش ہیں۔ اگر خواتین اور نوجوان واقعی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں تو یہ انتخاب بہار کی سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کر سکتا ہے، ایک ایسا دور جہاں ترقی، مساوات اور شراکت داری ووٹ کا اصل معیار بنیں گے۔
**************

