تاثیر 16 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات 2025 کا منظر نامہ ہر ایک گزرتے دن کے ساتھ غیر متوازن ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی مضبوط اتحاد سمجھے جانے والے این ڈی اے کی اندرونی دراڑیں اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔یہ اختلافات صرف وقتی ناراضگی کا سبب نہیں بلکہ وہ بتدریج اعتماد کے بحران میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ بی جے پی کےچناوی چانکیہ سمجھے جانے والے امیت شاہ، پارٹی کے سینئر لیڈر و بہار کے الیکشن انچارج دھرمیندر پردھان اور بہار الیکشن کے سنٹرل آبزرور ونود تاوڑے جیسے تجربہ کار رہنما اس بار غیر معمولی سیاسی غلطیوں کے مرتکب دکھائی دے رہے ہیں۔
جے ڈی یو کا سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ جب چراغ پاسوان کو ابتدائی طور پر 22 نشستیں دینے پر اتفاق ہوا تھا، تو آخر دہلی میں گفت و شنید کے دوران وہ تعداد اچانک 29 کیسے ہو گئی؟ جے ڈی یو کا کہنا ہے کہ چراغ پاسوان، جیتن رام مانجھی اور اُپندر کشواہا کو ایڈجسٹ کرنا بی جے پی کی ذمہ داری تھی۔ لیکن جب بی جے پی نے اضافی نشستیں چراغ کو دیں، تو وہ اپنی جگہ سے نہیں بلکہ جے ڈی یو کے حصے سے نکالی گئیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب نتیش کمار نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ ایک سیاسی چال چلی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار نے این ڈی اے کے طرزِ عمل پر کھلے عام ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کو سیدھے سی ایم ہاؤس سے انتخابی نشان دینا شروع کر دیا ۔اسی تسلسل میں جے ڈی یو نے نہ صرف لوجپا کو ملی پانچ نشستوں،موروا، گائےگھاٹ، راجگیر، سونبرسا اور ایکما،پر اپنے امیدوار اتار دیے بلکہ اب اس نے یہ شرط بھی رکھ دی ہے کہ بی جے پی سمیت تمام اتحادی تحریری طور پر نتیش کمار کو ’سی ایم فیس‘ کے طور پر تسلیم کریں، تاکہ بی جے پی کو یہ واضح پیغام پہنچے کہ جے ڈی یو اب کسی بھی دباؤ یا ’بیک ڈور ڈیل‘ کے لئے قطعی تیار نہیں ہے۔ دراصل یہ اُس عدم اعتماد کا اظہار ہے،جو حالیہ دنوں میں بی جے پی کے طرزِ عمل سے پیدا ہوا ہے۔
اس سیاسی کشمکش کے درمیان، 15 جنوری کو جے ڈی یو کی جانب سے جاری امیدواروں کی پہلی فہرست نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ 57 امیدواروں کی اس فہرست میں ایک بھی مسلم نام شامل نہیں ہے، حالانکہ 2020 میں پارٹی نے 11 مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس بار نتیش کمار نے اپنی توجہ ’لَو کش‘ یعنی کرمی، کوئری، دھانک اور کشواہا برادری پر مرکوز کی ہے، جنہیں پارٹی اپنا مضبوط سماجی سہارا سمجھتی ہے۔ یہی نہیں، اس فہرست میں 12 دلت، 9 انتہائی پسماندہ، اور 4 خواتین امیدوار شامل ہیں، جبکہ تقریباً پچاس فیصد نئے چہرے میدان میں اتارے گئے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ جے ڈی یو اب اپنے ووٹ بینک کی نئی بنیاد تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر یہ نئی بنیاد سماجی توازن کے نئے فارمالے پر ٹکی ہوئی ہے، مگر اس پہلی فہرست میں ایک بھی مسلم چہرہ موجود نہیں رہنے کی وجہ سے اقلیتوں میں مایوسی کا بڑھنا فطری ہے۔
اِدھرسیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی ترجیحات نے نتیش کمار جیسے سلجھے ہوئے سیاست داں کو دفاعی مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر این ڈی اے میں اس طرح کے اختلافات برقرار رہے تو اتحاد کی انتخابی یکجہتی کمزور پڑ سکتی ہے۔ چراغ پاسوان، جیتن رام مانجھی اور اوپیندر کشواہا جیسے چھوٹے اتحادیوں کی بڑھتی ہوئی خود مختاری بھی اس اتحاد کے لئے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔بی جے پی کی یہ کوشش کہ وہ سب کو خوش رکھے، الٹا اس کے لئے سیاسی بوجھ بن گئی ہے۔
ویسے مجموعی طور پر دیکھا جائے تو این ڈی اے کی یہ اندرونی کشمکش 2025 کے بہار اسمبلی انتخابات پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔ اگر بی جے پی اور جے ڈی یو نے اپنی غلط فہمیوں کو ختم نہ کیا تو اس کا سیدھا فائدہ اپوزیشن کو ہو سکتا ہے، خصوصاً آر جے ڈی کو، جو پہلے ہی نتیش کمار کی ناراضگی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ بہار کی سیاست ہمیشہ غیر متوقع موڑ لیتی رہی ہے، اور اگر اتحادیوں کے درمیان اختلافات اسی طرح بڑھتے رہے تو ممکن ہے کہ نتیش کمار ایک بار پھر سیاسی محور بدلنے کا فیصلہ کر لیں۔ بہار میں اس وقت سیاسی طاقت کی وہی پرانی بساط بچھ گئی ہے، جس پر اتحاد بنتے بھی ہیں اور بکھرتے بھی ، لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ عوام کا موڈ بھی متاثر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
مجموعی طور پر یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی اندرونی ہم آہنگی خطرے میں ہے۔ بی جے پی کی انتخابی حکمتِ عملی، جس نے چراغ پاسوان کو حد سے زیادہ ترجیح دی ہے، اب اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو مجروح کر چکی ہے۔ اگر این ڈی اے اس بحران پر بر وقت قابو نہ پا سکا تو 2025 کا انتخاب بہار کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جہاں وفادار یوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اتحاد کی بنیادیں بھی مزید کمزور ہو سکتی ہیں۔
**********************************

