عظیم اتحاد کی صحت کیا واقعی خراب ہے ؟

تاثیر 14 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار اسمبلی انتخابات ، 2025  کا عمل 10 اکتوبر سے ہی شروع ہو گیا ہے۔ این ڈی اے کے اندر سیٹ شیئرنگ کا فارمولہ بھی طے ہو چکا ہے۔مگر دوسری جانب عظیم اتحاد کے خیمے کے اختلافات پوری طرح سے سامنے آ گئے ہیں۔ یہ محض نشستوں کا تنازعہ نہیں بلکہ قیادت، اعتماد اور توازن کی سیاست کا امتحان بن چکا ہے۔ جہاں این ڈی اے نے بہ ظاہر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں کو مطمئن کر لیا ہے، وہیںعظیم اتحاد کے خیمے میں بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وی آئی پی کے سربراہ مکیش سہنی کا جملہ ’’عظیم اتحادکی صحت خراب ہے، اسے علاج کی ضرورت ہے۔اسی لئے دہلی جا رہا ہوں‘‘، عظیم اتحاد کی داخلی سیاسی صورتحال کا علامتی بیان بن گیا ہے۔
کانگریس، جو کبھی بہار میں بڑی طاقت ہوا کرتی تھی، اب وہ اپنی بقا کی سیاست میں ہی غلطاں و پیچاں ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر راجیش رام،  ریاستی انچارج کرشنا اللہوارو، بہار اسمبلی میں لیجسلیٹیو پارٹی لیڈر شکیل احمد خان اور بہار قانون ساز کاؤنسل میں لیجسلیٹیو پارٹی لیڈر مدن موہن جھا جیسے رہنما کل ہی دہلی  روانہ ہو گئے ،ہیں تاکہ قیادت سے واضح ہدایات حاصل کی جا سکیں۔ اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ کانگریس قیادت نے صاف پیغام دیا ہے کہ یا توبلا تاخیر سمجھوتہ ہو جائے بصورت دیگر پارٹی اپنی راہ خود چننے کے لئے آزاد ہو گی۔ یہ دباؤ دراصل تیجسوی یادو پر ہے، جو ایک طرف وی آئی پی کے ناراض لیڈر مکیش سہنی کو منانے میں لگے ہیں، تو دوسری طرف اپنی جماعت کے اندر موجود ناراض امیدواروں کو بھی سنبھال رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عظیم اتحاد کا یہ بحران عارضی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی، آر جے ڈی کی برتری کی وجہ سے اتحادیوں کو مساوی حیثیت نہ ملنے کا احساس؛ دوسری، کانگریس کا اپنی محدودعددی طاقت کے باوجود زیادہ سیٹوں کی ضد پر اڑ جانا؛ اور تیسری، وی آئی پی کے لیڈر مکیش سہنی کا دوہرا رویہ، جو کبھی مہاگٹھ بندھن کے وفادار نظر آتے ہیں اور کبھی این ڈی اے کی طرف جھکاؤ دکھاتے ہیں۔ یہی غیر یقینی فضا اتحاد کو کمزور کر رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں این ڈی اے اختلافات کے باوجود اندرونی اتحاد کو سنبھا ل رکھنے میں کامیاب رہا ہے، وہیں عظیم اتحاد میں ہر فریق اپنی شرائط سے ہٹنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہا ہے۔ کانگریس کی یہ ضد کہ اگر وی آئی پی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو 70 سیٹوں پر امیدوار اتارے جائیں گے، دراصل اتحاد کے نظم و ضبط پر ایک بڑا سوال ہے۔ اگر ایسا ہوا توعظیم اتحاد کے اندر ’فرینڈلی فائٹ‘ جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان آر جے ڈی کو ہوگا۔سیاسی منظرنامے کا دوسرا دلچسپ پہلو تیجسوی یادو کی حکمت عملی ہے۔ وہ بیک وقت نئے اتحادیوں کی تلاش میں بھی ہیں اور پرانے ساتھیوں کو منانے میں بھی۔ پشوپتی پارس کے ساتھ بات چیت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے آئی پی گپتا سے رابطہ شروع کر دیا ۔ اگرچہ کانگریس نے پہلے ہی انہیں تین نشستوں کی پیشکش کی تھی، مگر اب آر جے ڈی براہِ راست بات چیت کے ذریعے انہیں اپنے خیمے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ صورتحال تب ہے ، جب پہلے مرحلے کے انتخابات میں محض چند دن باقی ہیں۔
غور سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے کہ یہ صورتِ حال تیجسوی یادو کی قیادت کے لئے بھی بڑا امتحان ہے۔ وہ خود کو این ڈی اے کے مقابل ایک قابلِ اعتماد متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کے خیمے میں بڑھتی ہوئی بے چینی ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مکیش سہنی جیسے اتحادی اگر الگ راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو اس کا براہِ راست اثر عظیم اتحاد کے انتخابی تانے بانےپر پڑسکتا ہے۔ بہار کی ذات پر مبنی سیاست میں وی آئی پی جیسے چھوٹے مگر مخصوص ووٹ بینک رکھنے والے اتحاد بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بہار کے سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عظیم اتحاد کا موجودہ بحران اتحاد کی کمزوری نہیں بلکہ اتحادیوں کی قیادت کی اپنے اپنے ڈھنگ سے سوچ کا منفی نتیجہ ہے۔ اگر آر جے ڈی، کانگریس اور وی آئی پی کے درمیان فوری سمجھوتہ نہیں ہوا تو یہ اتحاد اپنے ہی وزن سے دب سکتا ہے۔ دوسری طرف، این ڈی اے اپنی اندرونی صف بندی کو مستحکم کرتے ہوئے انتخابی مہم کو متحد چہرے کے ساتھ آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ بہار کے انتخابی منظرنامے میں اس وقت دو الگ کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، ایک جانب نظم و ضبط اور حکمت عملی کا مظاہرہ، دوسری جانب انا، بے اعتمادی اور سیاسی کمزوری کا کھیل۔ اگر عظیم اتحاد اس کشمکش سے وقت پر نہیں نکل سکا تو انتخابی میدان میں اس کا نقصان ناقابلِ تلافی ہو سکتا ہے۔ایسے میں مکیش سہنی کا یہ طنزیہ جملہ بھی سچ ثابت ہو جائے گا کہ ’’عظیم اتحادکی صحت خراب ہے۔‘‘
***********************